Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
(اے پیغمبر ﷺ کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائیگا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا۔
آیت نمبر 38 تا 44 ترجمہ : (اے نبی) ان کافروں سے مثلاً ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے کہو اگر اب بھی کفر سے اور نبی ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے سے باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ان سے درگذر کردیا جائیگا اور اگر پچھلی روش کا اعادہ کیا تو پہلے لوگوں کے حق میں قانون نافذ ہوچکا ہے یعنی ہلاک کرنے کا ہمارا قانون اس میں جاری ہوچکا، ہم ایسا ہی ان کے ساتھ کریں گے اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان کا فساد (عقیدہ) شرک ختم ہوجائے اور مکمل دین اللہ وحدہ ہی کا ہوجائے اور اس کے غیر کی بندگی نہ کیجائے، اور اگر یہ لوگ کفر سے باز آجائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے تو وہ ان کے اعمال کا صلہ دے گا، اور اگر ایمان سے روگردانی کریں تو یقین مانو کہ اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہ بہترین کار ساز اور تمہارا بہترین مددگار ہے، اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو مال غنیمت کے طور پر حاصل کرو یعنی کافروں سے جبرًا حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے اس میں وہ جو چاہے حکم کرے اور رسول کا ہے نبی ﷺ کے قرابتداروں کا ہے اور وہ بنی ہاشیم اور (بنی) مطلب ہیں اور یتیموں کا ہے یعنی ان یتیم مسلمان بچوں کا ہے جن کے آباء فوت ہوچکے ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ حاجتمند بھی ہیں، اور مسکینوں کا ہے یعنی حاجتمند مسلمانوں کا ہے، اور مسافر کا ہے (یعنی) جو مسلمان سفر کرنے سے مجبور ہوگیا ہو، یعنی اس کے مستحق نبی ﷺ ہیں اور مذکورہ چاروں قسمیں اس کے مطابق ہیں نبی ﷺ تقسیم فرماتے تھے، اس طریقہ پر کہ ایک کے لئے خمس کا پانچواں حصّہ ہے اور باقی چار خمس مجاہدین کے لئے ہیں اگر تم اللہ اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے محمد ﷺ پر فرشتے اور آیات فرقان کے دن اتارا جس دن کہ مسلمانوں اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی یعنی بدر کے دن جو حق اور باطل میں فرق کرنے والا تھا، تو ہم (خمس کو) حق سمجھ کر ادا کرو، اور ' ما ' کا عطف اللہ پر ہے اور اللہ ہر شیٔ پر قادر ہے اسی (مقدور) میں سے تمہاری قلت کے باوجود اور ان کی کثرت کے باوجود تمہارا غلبہ ہے جبکہ تم مدینہ سے پاس والے کنارے پر تھے اِذْیوم سے بدل ہے، اور (العُدْوة) عین کے ضمہ اور اس کے کسرہ کے ساتھ ہے (مراد) وادی کی جانب اور وہ مدینہ سے دور والے کنارہ پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف ساحل کی جانب تھا اور اگر تم اور قریشی لشکر قتال کے لئے وقت مقرر کرتے تو یقینا تم وقت مقرر سے تخلف کرتے لیکن تمہارے کو بغیر وقت مقرر کئے مقابلہ کرادیا تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو کر گذرے جس کا ہونا اس کے علم میں طے ہوچکا ہے اور وہ اسلام کا غلبہ اور کفر کو مٹانا ہے تاکہ جو کفر کرے ہلاک ہو تو وہ ایسی ظاہر دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کہ جو اس پر قائم ہوچکی ہے اور وہ (دلیل) مومنین کا قلت کے باوجود (کافروں) کے بڑے لشکر پر غلبہ حاصل کرنا ہے اور جو زندہ رہے (ایمان لائے) تو دلیل کے ساتھ زندہ رہے یقینا خدا سننے والا جاننے والا ہے (اور اے نبی) اس وقت کو یاد کرو کہ جب اللہ خواب میں تم کو ان کی تعداد کم دکھا رہا تھا چناچہ جب آپ نے اس کی خبر اپنے اصحاب کو دی تو وہ خوش ہوئے، اور اگر تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو تم ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں اختلاف شروع کردیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ہمت ہارنے اور اختلاف سے بچالیا، وہ یقینا دلوں کے حال کا جاننے والا ہے اور یاد کرو اس وقت کو اے مومنو ! کہ جب تمہاری ان سے مڈ بھیڑ ہوئی تو تمہاری نظر میں (دشمن) کو کم کرکے دکھایا، ستر یا سو، حالانکہ وہ ہزار تھے تاکہ تم پیش قدمی کرو اور لڑائی سے پسپائی اختیار نہ کرو اور یہ سب کچھ مذبھیڑ ہونے سے پہلے ہوا، اور اب مقابلہ آرائی شروع ہوگئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد اپنے سے دوگنی دکھائی، جیسا کہ ( سورة ) آل عمران میں ہے تاکہ جو بات ہونی تھی اللہ اسے ظہور میں لائے اور (انجام کار) سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای سُنَّتُنَا فیھم، اس میں اشارہ ہے کہ سنة الا ولین میں مصدر کی اضافت مفعول کی جانب ہے اسلئے کہ اصل میں سنتنا فیھم ہے۔ قولہ : توجَدْ ، تکون کی تفسیر توجد سے کرکے اشارہ کردیا کہ کان تامہ ہے لہٰذا اس کو خبر کی ضرورت نہیں ہے۔ قولہ : فاعْلَمُوْا، ذلک، اس میں اشارہ ہے کہ ان شرطیہ کی جزاء محذوف ہے اور وہ اعلموا ذلک ہے اس کے حذف پر ما قبل کا فاعلموا دلالت کررہا ہے اور بعض حضرات نے کہا فامتثلوا، جزاء محذوف ہے اور یہی زیادہ مناسب ہے اسلئے کہ اب مطلب ہوگا، اِنْ کنتم آمنتم مسئلة الخمس فامتثلوا ذلک، اس لئے کہ علم میں تو مومن اور کافر دونوں برابر ہے۔ قولہ : فَاَنَّ للہ خُمُسَہ، فاء جزائیہ ہے، أنَّما میں مَا، موصولہ متضمن بمعنی شرط ہے اور فَاَنَّ للہ متضمن بمعنی جزاء ہے، نخعی (رح) تعالیٰ عنہ نے اِنَّ ، ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور نے فتحہ کے ساتھ، اس صورت میں أنّ اور اس کا مابعد مبتداء ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی تقدیر عبارت یہ ہوگی، '' فو اجب أنّ للہ خمسہ '' دوسری ترکیب یہ ہوسکتی ہے خُمُسَہ ' مبتداء اس کی خبر محذوف ہوگی ای ثابت۔ تفسیر وتشریح اس رکوع کی پہلی آیت '' قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَروا اِنْ یَنْتَھُوا یُغفرلھم الخ میں کفار سے پھر ایک مربیانہ خطاب ہے جس میں ترغیب ہے اور ترہیب بھی، ترغیب اس کی ہے کہ اگر وہ ان تمام افعال شنیعہ کے بعد جو انہوں نے ابتک اسلام کی مخالفت اور ذاتی زندگی میں کئے ہیں توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے، اور ترہیب یہ ہے کہ اگر وہ اب بھی باز نہ آئے تو سمجھ لیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کو کوئی نیا قانون بنانا یا سوچنا نہیں پڑے گا پہلے زمانہ کے کافروں کے لئے جو قانون جاری ہوچکا وہی ان پر بھی جاری ہوگا، کہ دنیا میں ہلاک و برباد ہوئے اور آخرت میں عذاب کے مستحق۔
Top