Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
مومنو ! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو۔
آیت نمبر 45 تا 48 ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تمہاری کسی کافر جماعت سے مڈ بھیڑ ہوجائے تو ان سے قتال کے لئے ثابت قدم رہو، بزدلی نہ دکھاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور اس سے نصرت کی دعاء کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ تو تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، تمہاری شوکت و طاقت جاتی رہے گی، صبر سے کام لو، یقینا اللہ نصرت و اعانت کے ذریعہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اپنے قافلے کو بچانے کے لئے اتراتے ہوئے لوگوں کو (شان و سامان) دکھاتے ہوئے نکلے تھے، اور قافلے کے بچ نکلنے کے بعد وہ لوٹ کر نہیں آئے ( جب ان سے کہا گیا کہ واپس چلو) تو انہوں نے کہا ہم اس وقت تک واپس نہیں ہوں گے جب تک کہ (میدان بدر) شراب نوشی نہ کرلیں، اور اونٹوں کو ذبح نہ کرلیں، اور گانے بجانے والی لونڈیاں گا بجانہ لیں، اور لوگ ہماری بہادری کی تعریف نہ کریں اور وہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس کا علمی احاطہ لئے ہوئے ہے (تعملون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اللہ اس کا ضرور صلہ دے گا، اس وقت کو یاد کرو جب شیطان ابلیس نے ان کی نظروں میں ان کے اعمال کو خوشنما کرکے دکھایا تھا بایں صورت کہ مسلمانوں سے بھڑ جانے پر ان کو اس وقت ہمت دلائی جب ان کو دشمن بنی بکر سے بغاوت کا اندیشہ ہوا، اور ان سے کہا کہ آج تم پر کوئی غالب آنیوالا نہیں، اور کنانہ (بنی بکر) کی طرف سے میں تمہارا مددگار ہوں، اور ابلیس ان کے پاس اس علاقہ کے سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں آیا تھا، اور دونوں جماعتوں (یعنی) مسلمانوں اور کافروں کا مقابلہ ہوا، اور ابلیس نے فرشتوں کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے الٹے پاؤں پھر گیا، اور ابلیس کا ہاتھ حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا اور جب مشرکوں نے ابلیس سے کہا کیا تم ہم کو اس حالت میں چھوڑتے ہو ؟ تو ابلیس نے جواب دیا میں تمہاری مدد سے بری (معذور) ہوں، اس لئے کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں جن کو تم نہیں دیکھ رہے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے یہ کہ وہ مجھے ہلاک کردے گا، اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : فِئَةً ، فِئة بمعنی جماعت یہ اسم جمع ہے اس کا لفظاً کوئی واحد نہیں ہے (جمع) فئات . قولہ : قُوَّتُکُم ودَوْلَتُکُم لفظ ریح قوة اور دولة کے لئے مستعار ہے، دَوْلة بمعنی حرب و غلبہ استعمال ہوتا ہے دِوَل، دُولَة، دال کے ضمّہ کے ساتھ بمعنی مال، اس کی جمع دُوَل، دال کے ضمہ کے ساتھ۔ قولہ : وتَضْرِبَ علینا، القُیَّانُ ضرب العودو الطنبور، طبلہ و ستار بجانا۔ قولہ : القُیّان، (واحد) قَیْنَة، الجواری المغنیات گانیوالی باندیاں۔ قولہ : بَدْرٍ ، اس کا تعلق سابق تینوں افعال کے ساتھ ہے۔ قولہ : فَیَتَسَاَمعَ بذلک ای فَیَثْنَوْ ا علیھم بالشجاعة، یعنی ان کی بہادری کی تعریف کریں۔ تفسیر وتشریح جنگی آداب و ہدایات : یا ایُّھا الّذِیْنَ آمنوا اِذَا لقیتم فئةً ، مسلمانوں کو جنگ کے سلسلہ میں پانچ ہدایتیں دی جارہی ہیں، اور وہ آداب بتائے جارہے ہیں جن کو مقابلہ کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے سب سے پہلی ہدایت جو کہ فتح و کامرانی کا نشان ہے یہ کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت ثابت قدمی اور استقلال ہے کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف و تحیز کی دونوں صورتیں مستثیٰ ہوں گی جن کی وضاحت سابق میں گذر چکی ہے کیونکہ بعض دفعہ ثابت قدمی کے لئے تحرّف یا تحیز نا گزیر ہوتا ہے، دوسری ہدایت یہ کہ اللہ کی طرف کثرت سے متوجہ رہے اور اگر مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب و غرور پیدا نہ ہو بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر رہے، تیسری ہدایت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ظاہر بات ہے کہ ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی اطاعت نہایت ضروری ہے اگرچہ اطاعت ہرحال میں ضروری ہے مگر میدان جنگ میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے ایسے موقع ہر تھوڑی سی نافرمانی بھی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے، چوتھی ہدایت یہ کہ آپس میں اختلاف نہ کرو اس سے تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا '' لوگوں دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو تاہم جب کبھی دشمن سے مقابلہ کی نوبت آہی جائے تو صبر سے کام لو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ''۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد)
Top