بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی (قیامت) کا حال معلوم ہوا ہے ؟
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، کیا تجھے چھا جانے والی قیامت کی خبر پہنچی (قیامت کو غاشیہ) اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ہولناکیوں کے ذریعہ پوری مخلوق پر چھا جائے گی، کچھ چہرے اس روز ذلیل ہوں گے دونوں جگہ شخصیات کو وجوہ سے تعبیر کیا گیا ہے، سخت محنت جھیل رہے ہوں گے طوق اور زنجیروں کی وجہ سے سخت محنت و مشقت جھیل رہے ہوں گے، وہ سخت آگ میں جھلس رہے ہوں گے (تصلیٰ ) تاء کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے، نہایت گرم کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کے لئے دیا جائے گا ان کے لئے سوائے کانٹے دار درختوں کے اور کوئی غذذا نہ ہوگی، (ضریع) ایک قسم کی کانٹے دار گھاس ہے جسے اس کے خبث کی وجہ سے کوئی جانور نہیں چرتا، جو نہ موٹا کرے گی اور نہ بھوک مٹائے گی کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے دنیا میں طاعت کی کارگزایر پر خوش ہوں گے، جب حسا و معناً عالی مقام جنت میں (اپنی) سعی کا ثواب دیکھیں گے، اے مخاطب ! کوئی بےہودہ بات وہاں نہ سنے گا یسمع یا اور تا کے ساتھ، یعنی بےہودہ کلام، وہاں پانی کے بہتے چشمے ہوں گے عین بمعنی عیون ہے اس میں ذات اور مرتبہ اور محل کے اعتبار سے اونچے اونچے تخت ہوں گے اور چشموں کے کنارے بغیر دستے (ٹونٹی) کے ساغر رکھے ہوں گے جو جنتیوں کے پینے کے لئے بنائے گئے ہوں گے اور گائو تکیوں کیق طاریں لگی ہوں گی جن پر ٹیک لگائی جائے گی، اور مخملی غالیچے بچھے ہوئے ہوں گے، یعنی ایسے فرش جو روئیں دار ہوں گے، کیا یہ کفار مکہ عبرت کی نظر سے اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ہیں ؟ (اور کیا) آسمان کو نہیں دیکھتے کہ ان کو کس طرح اونچا کیا گیا ہے ؟ اور (کیا) پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کیسے جمائے گئے ہیں ؟ اور (کیا) زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح بچھائی گئی ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ک قدرت اور اس کی وحدانیت پر استدلال کریں، ابل کو شروع میں لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب بہ نسبت دیگر چیزوں کے ان سے زیادہ گھلے ملے رہتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کا قول سطحت اس بات پر ظاہر الد لالت ہے کہ زمین مسطح ہے اور اسین ظریہ پر علماء شرع ہیں، نہ کہ گول جیسا کہ اہل ہیئت کا قول ہے اگرچہ زمین کے گول ہونے سے شریعت کا کوئی رکن نہیں وٹتا، پس آپ ﷺ نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ﷺ ان پر داروغہ نہیں ہیں اور ایک قرأت میں سین کے بجائے صاد کے ساتھ ہے یعنی آپ ﷺ مسلط نہیں ہیں اور یہ حکم، جہاد کا حکم آنے سے پہلے کا ہے البتہ جو ایمان سے اعراض کرے گا اور قرآن کا انکار کرے گا تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا (یعنی) آخرت کا عذاب، اور اصغر دنیا کا عذاب ہے قتل اور قید کے ساتھ، بلاشبہ ان لوگوں کو موت کے بعد ہماری ہی طرف پلٹنا ہے، پھر ان کا حساب لینا یعنی ان کی جزا و سزا ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اس کو ہرگز ترک نہ کریں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھل اتلک ایک جماعت نے کہا ہے کہ ھل بمعنی قد ہے، ای قد جاءک یا محمد ! حدیث الغاشیۃ اور ہا گیا ہے کہ ھل اپنے معنی پر ہے اور تعجب کے معنی کو متضمن ہے۔ قولہ : وجوہ یومئذ یہ جملہ مستانفہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ قولہ : ماحدیث الغاشیۃ ؟ قولہ : وجوہ یومئذ خاشعۃ وجوہ مبتداء ہے اور خاشعۃ اس کی خبر ہے۔ سوال : وجوہ نکرہ ہے اس کا مبتداء بننا کس طرح درست ہے ؟ جواب : نکرہ چونکہ مقام تفصیل میں واقع ہے لہٰذا اس کا مبتداء بننا صحیح ہے، یومئذ میں تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے ای یوم غشیان الغاشیۃ یہاں وجوہ سے اصحاب وجوہ مراد ہیں یہ اطلاق الجزاء علی الکل کے قبیل سے ہے، وجہ چونکہ اشرف الاعضاء ہے اس لئے اس کو اختیار کیا گیا ہے۔ قولہ : عاملۃ محنت کشندہ، مشقت اٹھانے والا۔ قولہ : ناصبۃ تھکنے والا، درماندہ عاملۃ ناصبۃ رفع کے ساتھ یہ دونوں مبتداء کی دوسری خبر ہیں۔ قولہ : آنیۃ کھولتا ہوا پانی، انی سے اسم فاعل و احد مئونث قولہ : ضریع خار دار جھاڑ، ضریع ایک گھاس ہے جس کو شبرق کہا جاتا ہے اور جب یہ گھاس خشک ہوجاتی ہے تو اہل حجاز اس کو ضریع کہتے ہیں اور یہ زہر ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر) قولہ : لاتسمع فیھا لاغیۃ (1) جمہور کے نزدیک تاء فوقانیہ کے فتحہ اور لاغیۃ کے نصب کے ساتھ ہے، ای لا تسمع انت ایھا المخاطب فیھا لاغیۃ (یا) لاتسمع تلک الوجوہ لاغیۃ (2) اور ابن کثیر اور ابو عمرو نے یاء تختانیہ مضمومہ کے ساتھ مبنی للمفعول لاغیۃ کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے (3) اور نافع نے تاء فوقانیہ مضمومہ کے ساتھ مبنی للمفعول پڑھا ہے (4) اور فضل اور حجدری نے تاء فوقانیہ کے فتحہ کے ساتھ مبنی للفاعل اور لاغیۃ کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے لاغیۃ یہ موصوف محذوف کی صفت ہے، ای کلمۃ لاغیۃ (یا) نفساً لاغیۃ (یا) عافیہ کے وزن پر مصدر بمعنی لغواً ہے، ای لایسمع فیھا لغواً قولہ : ای نفس ذات لغو اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ نفس، لاتسمع کا فاعل ہے، لاغیۃ مفعول بہ، اور تاء والی قرأت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لاتسمع کا فاعل انت محذوف ہو اور نفساً لاغیۃ مفعول اس صورت میں نفساً محذوف ماننے کے بجائے کلمۃ بھی محذوف مان سکتے ہیں، ای کلمۃ ذات لغو قولہ : اکو اب اقداح لاعری لھا، اکواب، کو ب کی جمع ہے بروزن قفل واقفال، کو ب اس برتن کو کہتے ہیں جس میں دستہ اور ٹونٹی نہ ہو مثلاً گلاس، پیالہ وغیرہ۔ قولہ : نمارق یہ نمرقۃ کی جمع ہے، نون اور اء کے ضمہ اور دونوں کے کسرہ کے ساتھ بمعنی تکئے، مسند قولہ : زرابی زربیۃ کی جمع ہے۔ قولہ : طنافس یہ طنفسۃ مثلث کی جمع ہے، روئیں دار فرش، چٹائی، قالین، مخملی فرش تفسیر و تشریح ھل اتلک حدیث الغاشیۃ یہاں غاشیہ سے مراد قیامت ہے یعنی وہ آفت کہ جو سارے جہان پر چھا جائے گی، اس آیت میں مجموعی طور پر پورے عالم آخرت کا ذکر ہے۔
Top