Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے اہل ایمان ! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو۔ اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
آیت نمبر 123 تا 129 ترجمہ : اے ایمان والو ! تم اپنے آس پاس والے منکرین (کفار) سے قتال کرو یعنی ان سے الاقرب فالاقرب کے قاعدہ کے مطابق بالترتیب، اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں یعنی تم ان کے ساتھ سخت رویہ رکھو، اور یقین رکھو اللہ مدد اور نصرت کے ذریعہ متقیوں کے ساتھ ہے، اور جب (نئی) سورت قرآن کی نازل ہوتی ہے تو ان منافقین میں سے کچھ لوگ آپ ﷺ کے اصحاب سے استہزاء کرتے ہیں (بتائو) اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں تصدیق کا اضافہ کیا سو (سنو) جو لوگ اہل ایمان ہیں (اس سورت نے) ان کے ایمان میں ان کے اس کی تصدیق کرنے کی وجہ سے اضافہ کردیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں یعنی اس سورت کے نزول سے خوش ہو رہے ہیں، اور جن لوگوں کے دلوں میں ضعف اعتقاد کا مرض ہے (اس سورت نے ان) کی گندگی میں مزید گندگی کا اضافہ کردیا اس سورت کا انکار کرنے کی وجہ سے ان کے کفر میں مزید کفر کا اضافہ کردیا ہے اور وہ حالت کفر ہی پر مرگئے کیا یہ منافق نہیں دیکھتے (یَرَوْنَ ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اے مومنو ان کو ہر سال ایک یا دو مرتبہ خشک سالی اور امراض کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے مگر یہ لوگ پھر بھی نفاق سے باز نہیں آتے اور نہ وہ سبق لیتے ہیں اور جب کوئی (نئی) سورت نازل ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں (یعنی آنکھوں کے اشارہ سے باتیں کرنے لگتے ہیں (دراصل) وہ کھسک جانا چاہتے ہیں حال یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ تم کو کھسکتے ہوئے کوئی دیکھ تو نہیں رہا اگر انہیں کوئی دیکھ رہا ہوتا تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں، ورنہ بیٹھے رہتے ہیں، پھر یہ لوگ کفر کی طرف پلٹ گئے اللہ ان کے قلوب کو ہدایت سے پھیر دے اور یہ اس لئے ہوا کہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں یعنی ان کے عدم تدبر کی وجہ سے حق کو سمجھتے نہیں، تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں، یعنی تم ہی میں سے ہیں (اور) وہ محمد ﷺ ہیں، تمہارا نقصان میں پڑنا ان پر شاق ہے یعنی تمہاری تکلیف مشقت اور تم کو ناپسندیدہ چیز کا پیش آنا (اس پر شاق ہے) تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے یہ کہ تم ہدایت پر آجائو اور ایمان والوں کے لئے وہ شفیق اور مہربان ہے، ان کے لئے خیر چاہتے ہیں اب اگر یہ لوگ تم پر ایمان لانے سے اعراض کرتے ہیں تو تم کہہ دو میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے، یعنی اسی پر اعتماد کیا ہے نہ کہ کسی اور پر، اور عرش عظیم کرسی کا مالک ہے عرش کے ذکر کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ وہ اعظم مخلوقات میں سے ہے، حاکم نے مستدرک میں ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت '' لقد جاء کم رسول، آخر سورت تک ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : یَلُوْنکُمْ ، وَلْی سے جمع مذکر غائب، وہ جو تم سے قریب ہیں۔ قولہ : ای اغْلظوا عَلَیْھِمْ ، یہ عبارت ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ وَلْیَجِدُوْا، یہ کفار کو امر ہے کہ وہ مسلمانوں میں غلظت اور سختی پائیں حالانکہ کفار پر وجدانِ غلظت واجب نہیں ہے۔ جواب : یہ ہے کہ گو بظاہر امر کفار کو ہے مگر حقیقت میں امر مومنین کو ہے، آیت میں سبب بول کر مسبب مراد لیا گیا ہے۔ قولہ : یقولون الخ۔ سوال : یقولون مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : چونکہ ھل یَراکم، کا ماقبل یعنی نَظَر بَعْضُھم الی بعضٍ میں بظاہر کوئی ربط نہیں ہے اس لئے کہ ھل یراکم حاضر ہے اور نَظَرَ بَعْضُھمْ الی بعض غائب ہے، اس میں ربط پیدا کرنے کے لئے یقولون محذوف ماننے کی ضرورت پیش آئی۔ قولہ : من احد، ای من المسلمین۔ قولہ : صَرَفَ اللہ علیھم دراصل منافقین کے لئے بددعاء ہے اس لئے کہ یہ مقام کے مناسب ہے نہ خبر۔ قولہ : بانھم قوم لا یفقھون یہ انصرفوا کے متعلق ہے نہ کہ صَرَفَ اللہ، کے اس لئے کہ یہ جملہ معترضہ دعائیہ ہے۔ قولہ : منکم ای من جنسکم، ای عربی، قریشی مثلکم۔ قولہ : ای عنتکم اس میں اشارہ ہے کہ ما عَنِتم میں ما مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ اس میں عائد کی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا عدم عائد کا شبہ ختم ہوگیا۔ تفسیر وتشریح یایھا الذین آمنوا قاتلوا الَّذِیْنَ یلونکم من الکفار الخ اس آیت میں منکرین حق سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے یعنی الاول فالاول اور الاقرب فالاقرب کے مطابق کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے پہلے جزیرة العرب کے عربوں سے جہاد کیا جب ان سے فارغ ہوگئے اور مکہ، طائف یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضرموت وغیرہ اقالیم پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا اور عرب کے تمام قبائل اسلام میں فوج در فوج داخل ہوگئے تو پھر اہل کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اس کے بعد 9 ھ میں رومیوں سے قتال کے لئے تبوک تشریک لے گئے جو جزیرة العرب کے قریب ہے اسی کے مطابق آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال کیا اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔ وَاِذَا ما أنزلت سورة الخ اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے یہ آیت اسی کا تتمہ ہے، اس میں بتلایا جا رہا ہے کہ جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت نازل ہوتی ہے اور ان کے علم میں بات آتی ہے تو وہ استہزا اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟
Top