Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
مَا لَكُمْ
: تمہیں کیا ہوا
اِذَا
: جب
قِيْلَ
: کہا جاتا ہے
لَكُمُ
: تمہیں
انْفِرُوْا
: کوچ کرو
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
اثَّاقَلْتُمْ
: تم گرے جاتے ہو
اِلَى
: طرف (پر)
الْاَرْضِ
: زمین
اَرَضِيْتُمْ
: کیا تم نے پسند کرلیا
بِالْحَيٰوةِ
: زندگی کو
الدُّنْيَا
: دنیا
مِنَ
: سے (مقابلہ)
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
فَمَا
: سو نہیں
مَتَاعُ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
فِي
: میں
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلٌ
: تھوڑا
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
آیت نمبر 38 تا 42 ترجمہ : اور (آئندہ) آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے غزوہ تبوک کے لئے نکلنے کے لئے کہا، حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تنگی میں تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا تو ان کے لئے (نکلنا) گراں محسوس ہوا، اے ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لئے کہا گیا تو تم زمین پر چمٹ کر رہ گئے تاء کو اصل میں ثاء مثلثہ میں ادغام کر کے ہمزہ وصل کا اضافہ کر کے (اِثَّاقلْتُم اصل میں تثاقلتم تھا) تاء کو ثاء مثلثہ سے بدل کر ثاء کو ثاء میں ادغام کر کے ہمزہ وصل شروع میں لے آئے یعنی تم سست پڑگئے اور جہاد کے مقابلہ میں وطن میں بیٹھ رہنے کو ترجیح دی، (مالکم) میں استفہام تو بیخ کے لئے ہے کیا تم نے دنیوی زندگی اور اس کی لذتوں کو آخرت کے مقابلہ میں یعنی اس کی نعمتوں کے بدلے پسند کرلیا ہے ؟ (تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے) کہ دنیا کا یہ سامان عیش آخرت کے سامان عیش کے مقابلہ میں نہایت قلیل حقیر ہے (اِلاّ ) میں ان شرطیہ کا لا میں ادغام ہے دونوں جگہ (یہاں اور آئندہ) اگر تم نبی ﷺ کے ساتھ نہ نکلے گے تو (اللہ) تم کو دردناک عذاب دے گا، اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے گا یعنی دوسری قوم کو تمہارے بجائے لے آئے گا، اور تم اس کی نصرت چھوڑ کر اس کا یا نبی کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے، اس لئے کہ اللہ اپنے دین کا خود ناصر ہے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اسی میں اس کے دین کی اور اپنے نبی کی نصرت بھی شامل ہے، اگر تم اس کے نبی کی مدد نہ کرو گے (تو کچھ پرواہ نہیں) اللہ اس کی اس وقت مدد کرچکا ہے جبکہ کافروں نے اس کو مکہ سے نکال دیا تھا یعنی اس کو نکلنے پر مجبور کردیا تھا، جبکہ دارالندوہ میں اس کے قتل یا قید کردینے کا یا جلاوطن کردینے کا (مشورہ) کیا تھا، جب وہ دو میں کا دوسرا تھا یہ حال ہے، اور دوسرے ابوبکر ؓ تھے مطلب یہ کہ اس کی اس (نازک) وقت میں مدد کی تو اس کو دوسرے وقت میں رسوا نہ کرے گا جب وہ جبل ثور کی غار میں تھے دوسرا اِذ، پہلے اِذْ سے بدل ہے جبکہ وہ اپنے ساتھ ابوبکر سے کہہ رہے تھے یہ اِذ، دوسرا بدل ہے، اور ابوبکر ؓ نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا تو رسول اللہ ﷺ سے کہا اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے کی طرف دیکھے گا تو یقینا ہم کو دیکھ لے گا غم نہ کر یقینا اللہ اپنی مدد کے ذریعہ ہمارے ساتھ ہے اس وقت اللہ نے اس اپنا سکون (یعنی) اطمینان قلبی نازل فرمایا، (عَلَیْہ) کی ضمیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ کی طرف راجع ہے اور کہا گیا ہے کہ ابوبکر کی طرف راجع ہے، اور اس کی (یعنی) نبی ﷺ کی مدد غار میں یا میدان قتال میں فرشتوں کے ایسے لشکر سے کی جو تم کو نظر نہیں آرہے تھے اور کافروں کا بول یعنی ان کے دعوائے شرک کو نیچا کردیا (یعنی) مغلوب کردیا، اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، (یعنی غالب) کلمہ شہادت، اللہ اپنے ملک میں زبردست ہے با حکمت ہے اپنی صنعت میں، نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل یعنی خوش ہو یا نا خوش اور کہا گیا ہے کہ قوی ہو یا ضعیف یا مالدار ہو یا نادار یہ حکم آیت '' لَیْس عَلَی الضعفاء '' سے منسوخ ہے، اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، تو تم بوجھل نہ بنو، (یعنی جی نہ چرائو) اور آئندہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو شریک غزوہ نہیں ہوئے، (اے نبی) اگر وہ بات جس کی آپ ان کو دعوت دے رہے ہیں دنیوی متاع سہل الحصول ہوتا اور سفر متوسط ہوتا تو وہ مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے ضرور آپ کے ساتھ چلتے مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن (دشوار) ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہے، جب آپ لوٹ کر ان کے پاس آئیں گے تو وہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم نکل سکتے (نکلنے کی پوزیشن میں ہوتے) تو آپ کے ساتھ ضرور نکلتے وہ اپنے آپ کو جھوٹی قسمیں کھا کر ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی اس بات میں جھوٹے ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : بادغام التاء فی الاصل فی المثلثة اصل میں ادغام کا مطلب ہے تعلیل سے پہلے تاء کو ثاء کیا اور ثاء کو ثاء میں ادغام کردیا اور ابتداء بالسکون لازم آنے کی وجہ سے ہمزہ وصل ابتداء میں لے آئے۔ قولہ : اِ ثَّا قَلْتُمْ اصل میں تَثَاقَلْتُمْ تھا، مذکورہ عبارت کے اضافہ کا مقصد اثاقلتم میں ثاء کی تشدید اور شروع میں ہمزہ وصل لانے کی وجہ بیان کرنا ہے باوجودیکہ یہ باب تفاعل سے ہے۔ قولہ : تَبَاطئتم، بطوء سے ماخوذ ہے بمعنی سستی کرنا یہ سرعت کی ضد ہے۔ سوال : مفسر علام نے اِثَّاقَلْتم کی تفسیر ملتم سے کیوں کی ؟ جواب : چونکہ تثاقل کا صلہ الی نہیں آتا اس لئے مفسر علام نے ملتم کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ تثاقل، مَیْل کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : والقعود فیھا، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : القعود فیھا کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اس اضافہ کا فائدہ یہ ہے کہ اگر جہاد میں شریک ہوتے تو تب بھی زمین ہی پر ہوتے شریک جہاد نہ ہونے کی صورت میں زمین پر رہنے کے کیا معنی ہیں ؟ مفسر علام نے القعود فیھا کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں اثاقلتم الی الارض کے معنی بزدلی دکھانا ہیں۔ قولہ : ای بدل نعیمھا، اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ من الاخرة میں من مقابلہ کیلئے ہے نہ کہ ابتدائیہ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ آخرت سے حیات دنیا کے ابتداء کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں، نعیمھا کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ مطلقاً آخرت کو چھوڑنا مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اس کی نعمتوں کو چھوڑنا مراد ہے۔ قولہ : جنب متاع اس میں اشارہ ہے کہ، فَمَا، میں فاء مقابلہ کے لئے ہے نہ کہ ظرفیت کے لئے لہٰذا متاع دنیا کے لئے آخرت کا ظرف واقع ہونے کا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : حال یعنی ثانی اثنین آپ ﷺ کی طرف راجع ضمیر سے حال ہے۔ قولہ : ای احد الاثنین، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جب ثانی کی اضافت عدد کی جانب کی جاتی ہے تو غیر مضاف الیہ مراد ہوتا ہے اس قاعدہ سے معلوم ہوا کہ آپ دو کے علاوہ تیسرے تھے حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہے، احد الاثنین کہہ کر بتادیا کہ مراد دو میں سے ایک ہیں نہ کہ دو کے تیسرے۔ قولہ : جبل ثور، جبل ثور مکہ کی دائیں جانب ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے۔ قولہ : انہ خیر لکم یہ تعلمون کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فلا تثاقلوا یہ شرط کی جزاء ہے۔ تفسیر وتشریح شان نزول : یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ الخ یہاں سے لے کر اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ تک پورے دو رکوع غزوہ تبوک اور اس میں شریک نہ ہونے والے منافقین کے بارے میں نازل ہوئے ہیں۔ غزوہ تبوک : روم کے عیسائی بادشاہ ہرقل کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا ہے چناچہ نبی ﷺ نے بھی اس کے لئے تیاری کا حکم دے دیا یہ شوال 9 ھ کا واقعہ ہے، موسم سخت گرمی کا تھا اور سفر بہت لمبا تھا بعض مسلمانوں اور منافقوں پر یہ حکم گراں گذرا جس کا اظہار اس آیت میں کیا گیا ہے اور انہیں زجرو توبیخ کی گئی ہے یہ جنگ تبوک کہلاتی ہے اس غزوہ میں معرکہ پیش نہیں آیا بیس روز تک مسلمان ملک شام کے قریب قیام کر کے واپس آگئے اس غزوہ کو '' جیش العسرہ '' بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سفر میں مسلمانوں کے لشکر کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ غزوہ تبوک کے اسباب پر اجمالی نظر : رومی سلطنت کے ساتھ کشمکش کی ابتداء تو فتح مکہ سے پہلے ہی ہوچکی تھی نبی ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت دینے کے لئے عرب کے مختلف حصوں میں جو وفود روانہ فرمائے تھے ان میں سے ایک وفد شمال کی طرف سر حد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا، یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے ان لوگوں نے ذات الطلح کے مقام پر اس وفد کے پندرہ آدمیوں کو قتل کردیا صرف وفد کے رئیس کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے، اسی زمانہ آپ ﷺ نے بصریٰ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام دے کر حارث بن عمیر کو بھیجا تھا جن کو شرحبیل نے قتل کردیا تھا یہ رئیس عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کا تابع تھا ان وجوہ کی بنا پر آپ ﷺ نے جمادی الاولی 8 ھ میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف روانہ کی تاکہ آئندہ کے لئے یہ علاقہ مسلمانوں کے لئے پر امن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں، یہ فوج جب معان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے اور خود قیصر بھی حمص کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی کی قیادت میں مزید ایک لاکھ فوج روانہ کی ہے، لیکن اس خوفناک اطلاع کے باوجود تین ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر لشکر آگے بڑھتا چلا گیا اور موتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جا ٹکرایا، اس کا نتیجہ تو بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر حیران وششدررہ گیا کہ ایک اور 33 کے اس مقابلہ میں کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے، یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد قبائل کو بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبایل کو جو کسریٰ کے زیر اثر تھے اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ رومی لشکر کے ایک کمانڈر کا قبول اسلام : اسی زمانہ میں سلطنت روم کی عربی فوج کا ایک کمانڈو فروہ بن عمر الجذ امی مسلمان ہوگیا اور اس نے اپنے پختگی ایمان کا ایسا ثبوت دیا کہ سارے علاقے دنگ رہ گئے، قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی خبر ملی تو اس کو گرفتار کرا کر اپنے دربار میں حاضر کرلیا اور اس سے کہا دو چیزوں میں سے ایک منتخب کرلو ترک اسلام جس کے نتیجے میں تم کو نہ صرف یہ کہ رہا کردیا جائے گا بلکہ تمہارے عہدے پر بھی بحال کردیا جائے گا یا اسلام، جس کے نتیجے میں تم کو سزائے موت دی جائے گی، اس نے زندگی اور عہدے کے مقابلہ میں موت اور آخرت کی راحت کو منتخب کرلیا اور راہ حق میں جان دے دی، یہی واقعات تھے جنہوں نے قیصر کو اس خطرہ کی حقیقی اہمیت کو محسوس کرا دیا جو عرب سے اٹھ کر اس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ غزوہ تبوک کی تفصیل : معجم طبرانی میں عمران بن حصین ؓ سے مروی ہے کہ نصارائے عرب نے ہرقل شاہ روم کے پاس یہ خط لکھ بھیجا کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوچکا ہے اور لوگ قحط سالی کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں لہٰذا عرب پر حملہ کے لئے نہایت مناسب موقع ہے، ہرقل نے فوراً تیاری کا حکم دے دیا چالیس ہزار رومیوں کا لشکر جرار آپ ﷺ کے مقابلہ کے لئے تیار ہوگیا۔ شام کے نبطی سودا گر جو زیتون کا تیل فروخت کرنے کے لئے مدینہ آیا کرتے تھے ان سے بھی اس امر کی تصدیق ہوگئی اور مزید یہ بھی معلوم ہوگیا کہ رومیوں کا لشکر بلقاء کے مقام تک پہنچ گیا ہے اور ہرقل نے تمام لشکر کو ایک سال کی پیشگی تنخواہ بھی دے دی ہے۔ قیصر روم کا جذبہ انتقام : دوسرے ہی سال یعنی 9 ھ میں مسلمانوں سے غزوہ موتہ کا انتقام لینے کے لئے اور رسوائی وپسپائی کی خفت مٹانے کے لئے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں اور اس کے ما تحت غسانی اور دوسرے سردار بھی فوجیں جمع کرنے لگے، نبی ﷺ بھی اس سے بیخبر نہ تھے آپ ہر وقت اس چھوٹی بڑی بات سے باخبر رہتے تھے جس کا اسلامی تحریک پر موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو آپ نے ان تیاریوں کے معنی فوراً سمجھ لئے اور بغیر کسی تامل وتردد کے قیصر کی عظیم الشان طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا، اس موقع پر ذرہ برابر بھی اگر کمزوری دکھائی جاتی تو سارا بنا بنایا کام بگڑ جاتا، ایک طرف عرب کی جان بلب جاہلیت جس پر حنین میں کاری ضرب لگائی جا چکی تھی پھر جی اٹھتی دوسری طرف منافقین جو ابو عامر راہب کے واسطہ سے غسان کے عیسائی بادشاہ اور خود قیصر کے ساتھ ساز باز کئے ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں پر دین داری کا پردہ ڈالنے کے لئے مدینہ سے متصل ہی مسجد ضرار تعمیر کر رکھی تھی، بغل میں چھرا گھونپ دیتے اور سامنے سے قیصر جس کا دبدبہ ایرانیوں کو شکست دینے کی وجہ سے تمام دورونزدیک علاقوں پر چھایا ہوا تھا حملہ آور ہوجاتا، اور ان تین زبردست خطروں کی متحدہ یورش میں اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھا جاتی، اس لئے اس کے باوجود کہ قحط سالی تھی، مسافت بعید تھی، شدید گرمی کا موسم تھا، گرانی، فقرہ فاقہ اور بےسروسامانی کا دور تھا، فصلیں پکنے کا قریب تھیں غرضیکہ بڑا نازک وقت تھا جنگ کے لئے کسی طرح بھی بظاہر حالات ساز گار نہیں تھے خدا کے نبی نے یہ سوچ کر کہ دعوت حق کے لئے یہ موت اور حیات کے فیصلے کی گھڑی ہے اسی حال میں جنگ کی تیاری کا اعلان عام کردیا، اور دیگر غزوات کے برخلاف اس غزوہ میں آپ نے صاف صاف بتادیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے تاکہ اپنی وسعت کے مطابق ہر شخص تیاری کرسکے، منافق اس اعلان کو سن کر گھبرا اٹھے کہ ان کا پردہ فاش ہوا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے خود بھی جان چرائی اور دوسروں کو بھی یہ کہہ کر بہکانے لگے لا تنفروا فی الھر ایسی گرمی میں مت نکلو۔ مؤمنین صادقین اور غزوہ تبوک : ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لئے 22 سال سے وہ سربکف رہے ہیں اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے اس وقت پر جرأت دکھانے اور ہمت سے کام لینے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لئے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے، اور کمزوری دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ عرب میں بھی اس کی بساط الٹ جائے چناچہ اس احساس کے ساتھ مخلصین سمعاً وطاعةً کہہ کر جان ومال سے تیاری میں مصروف ہوگئے سب سے پہلے صدیق اکبر نے کل مال لا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی آپ نے دریافت فرمایا کہ اہل و عیال کے لئے کچھ چھوڑا ہے ؟ تو کہا صرف اللہ اور اس کے رسول کو، فاروق اعظم نے نصف مال پیش کیا عبد الرحمن بن عوف نے دو سو اوقیہ چاندی پیش کی حضرت عثمان غنی ؓ نے تین سو اونٹ مع سازوسامان کے اور ایک ہزار دینار لا کر بارگاہ نبوی میں پیش کئے آپ بہت خوش ہوئے اور بار بار ان کو پلٹتے اور یہ فرماتے جاتے کہ اس عمل صالح کے بعد عثمان کو کوئی عمل ضرر نہیں پہنچا سکے گا، اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو، حضرت عاصم بن عدی نے ستروسق کھجوریں آپ کی خدمت میں پیش کیں، غریب صحابیوں نے محنت و مزدوری کر کے جو کچھ کمایا تھا لا کر حاضر کردیا، عورتوں نے اپنے زیور اتار اتار کر دے دئیے غرضیکہ فدائیان حق نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ جنگ کی تیاری کی سرفروش رضا کاروں کے گروہ کے گروہ امڈ امڈ کر آنے شروع ہوگئے اور انہوں نے تقاضہ کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کے لئے حاضر ہیں، جن کو سواری نہ مل سکی وہ روتے رہ گئے یہ موقع عملا ایمان ونفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا حتی کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہوجائے چناچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دوران سفر جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابہ کرام نبی ﷺ کو اس کی اطلاع دے دیتے تھے، اور جواب میں آپ ﷺ برجستہ فرماتے تھے '' دعوة فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذلک فقد اراحکم اللہ منہ '' جانے دو اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمہارے ساتھ لا ملائے گا، اور اگر کچھ دوسری بات ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمہیں خلاصی بخشی۔ محمد بن مسلمہ انصاری ؓ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا : روانگی کے وقت آپ نے محمد بن مسلمہ انصاری کو اپنا قائم مقام اور مدینہ کا والی مقرر فرمایا، اور حضرت علی کو اہل و عیال کی حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑا حضرت علی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھ کو بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں، اس پر آپ نے فرمایا، کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم کو مجھ سے ایسی نسبت ہو جو ہارون (علیہ السلام) کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ مسئلہ خلافت بلافصل اور حضرت علی ؓ : اس حدیث سے شیعہ حضرات حضرت علی کی خلافت بلا فصل پر استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد خلافت حضرت علی کا حق ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سفر پر روانگی کے وقت حضرت علی ؓ کو اہل و عیال کی دیکھ بھال اور خبر گیری کے لئے مدینہ میں چھوڑا تھا کہ میری واپسی تک ان کی خبر گیری اور دیکھ بھال رکھنا اس سے حضرت علی ؓ کی امانت ودیانت اور قرب واختصاص تو بیشک معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اپنے اہل و عیال کی نگرانی اسی کے سپرد کرتے ہیں کہ جس کی امانت ودیانت پر اطمینان ہو فرزند اور داماد اس کام کے لئے زیادہ مناسب ہوتے ہیں، رہا یہ امر کہ میری وفات کے بعد تم ہی میرے خلیفہ ہو گے حدیث کو اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت علی ؓ چونکہ نہایت جری اور بہادر تھے اسی مناسبت سے آپ کا لقب '' اسد اللہ '' تھا نہیں چاہتے تھے کہ دیگر حضرات میدان کار زار میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں اور میں عورتوں اور بچوں میں معذوروں کی طرح مدینہ میں بیٹھا رہوں اس کے علاوہ کچھ منافقین نے یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ آپ ﷺ حضرت علی ؓ کو اپنے ہمراہ لے جانا چونکہ پسند نہیں کرتے اس لئے ان کو اہل و عیال کی نگرانی کا بہانہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ دیا ہے اس طعنہ زنی سے حضرت علی ؓ کو اور بھی زیادہ رنج ہوا چناچہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کی تسلی کے لئے فرمایا '' انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ '' اس سے مستقل اور دائمی خلافت پر استدلال کسی طرح مناسب اور صحیح نہیں ہے جس طرح حضرت ہارون (علیہ السلام) کی خلافت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کوہ طور سے واپسی تک وقتی اور عارضی تھی اسی طرح حضرت علی کی نیابت و قائم مقامی بھی وقتی اور عارضی تھی اس وقتی اور عارضی خلافت کے علاوہ دونوں خلافتوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے، حضرت ہارون (علیہ السلام) کا انتقال پہلے ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال بعد میں ہوا، ادھر آپ ﷺ کا انتقال پہلے ہوا اور حضرت علی کا انتقال بعد میں ہوا حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) چھوٹے ادھر اس کا عکس ہے آپ ﷺ عمر میں حضرت علی سے بڑے تھے اور حضرت علی چھوٹے، اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت علی کو خلافت عامہ تو دور کی بات ہے مدینہ پر بھی حاکم نہیں بنایا تھا اس لئے کہ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کو مدینہ کو حاکم واپنا نائب مقرر فرمایا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کی نیابت صرف اہل خانہ کی نگرانی کے لئے تھی۔ یوم پنجشنبہ ماہ رجب 9 ھ کو آپ کی تبوک کے لئے روانگی : جب آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ رومی لشکر بلقاء کے مقام تک پہنچ چکا ہے تو آپ نے حکم دیا کہ فورا سفر کی تیاری شروع کی جائے تاکہ دشمن کی سرحد (تبوک) پر پہنچ کر مقابلہ کریں، آپ ﷺ 30 ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جن میں دس ہزار سوار تھے اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے اس پر گرمی کی شدت پانی کی قلت مستزاد، مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے حلیفوں نے مقابلہ پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لی ہیں، اور اب کوئی دشمن موجود نہیں کہ اس سے جنگ کی جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ رومی غزوہ موتہ میں تین ہزار مجاہدوں کی ایک لاکھ مسلح اور تربیت یافتہ فوج کے مقابلہ میں جو شان دیکھ چکے تھے اس کے بعد ان میں یہ ہمت ہی نہ ہوئی کہ 30 ہزار مجاہدوں کے مقابلہ میں لاکھ دو لاکھ فوج لے کے آجائیں، جبکہ 30 ہزار مجاہدوں کی قیادت خود آپ ﷺ فرما رہے تھے، غزوہ موتہ کے موقع پر جب ایک لاکھ فوج صرف تین ہزار مجاہدوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو بھلا تیس ہزار کے مقابلہ کی ہمت کیسے کرسکتے تھے ؟ یہی وجہ تھی کہ رومی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ مسلمانوں کی اخلاقی اور سیاسی فتح : قیصر کے یوں طرح دے جانے سے جو اخلاقی اور سیاسی فتح مسلمانوں کو حاصل ہوئی آپ ﷺ نے اس مرحلہ پر اس کو کافی سمجھا، اور بجائے اس کے کہ تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی وحربی فائدہ حاصل کیا جائے، چناچہ آپ ﷺ نے تبوک میں بیس روز قیام کر کے ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر تھیں فوجی دبائو سے اسلامی سلطنت کا باج گذار اور تابع امر بنا لیا، اسی سلسلہ میں دومة الجندل کے عیسائی رئیس اکیدر بن عبد الملک کندی، ایلہ کا عیسائی رئیس یوحنا بن رؤبہ ان کے علاوہ اور کئی سرداروں نے جزیہ دے کر مدینہ کی تابعیت قبول کرلی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی حد تک پہنچ گئے۔ مالکم اذا قیل لکم الخ یہ کلمہ ملامت وتوبیخ ہے، یعنی آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے ! فقہاء نے اس آیت سے یہ حکم نکالا ہے کہ جب جہاد کی نفیر عام ہوجائے تو ہر شخص پر جو معذور شرعی نہ ہو جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ امام جصاص تحریر فرماتے ہیں، اقتضیٰ ظاھر الآیة وجوب النفیر علی من لم یستنفر۔ (حصاص) قولہ : لا تضروہ، کی ضمیر اللہ کے دین کی طرف راجع ہے، خود اللہ اور اس کے رسول کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے۔ (قرطبی) ۔ اذ ھما فی الغار الخ یہ اشارہ واقعہ ہجرت کی طرف ہے مشرکین مکہ آپ کے قتل پر تل گئے تھے اور آپ ﷺ حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر راتوں رات حضرت ابوبکر کے ساتھ غار ثور میں چھپتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے، آپ دونوں حضرات غار ثور میں موجود ہی تھے کہ مشرکوں کی تلاش کرنے والی پارٹی نقش قدم کے نشانات کی مدد سے غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئی، نشان شناس نے بتایا کہ قدموں کے نشانات یہیں تک ملتے ہیں، اسی غار کے اندر ہوں گے، کون انسان ہوسکتا ہے کہ ایسے موقع پر خود کو جانی دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھ کر پریشان اور مضطرب نہ ہوجاتا ؟ حضرت ابوبکر صدیق کو طبعاً اضطراب پیدا ہوا، مگر آپ ﷺ اس وقت بھی اللہ کے فضل و کرم سے بالکل مطمئن رہے، بلکہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق کو تسلی دی اور سمجھایا کہ ابوبکر گھبرانے کی کیا بات ہے ؟ ہم دو تنہا نہیں ہیں ہمارے ساتھ تو اللہ کی تائیدو نصرت موجود ہے۔ اذھما فی الغار، غار ثور مکہ کے مضافات میں مدینہ کے عام راستہ سے ہٹ کر چند میل کے فاصلہ پر واقع ہے، سفر ہجرت میں آپ نے حضرت ابوبکر کی معیت میں اس غار میں تین روز قیام فرمایا تھا، اس غار کا دہانہ اتنا تنگ ہے کہ لیٹ کر بمشکل انسان اس میں داخل ہوسکتا ہے، بعض علماء نے آی سے حضرت ابوبکر صدیق کے خلیفہ اول ہونے کا بھی اشارہ سمجھا ہے۔ (قرطبی) فائدہ : علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص ابوبکر صدیق کی صحابیت کا انکار کرتا ہے وہ نص قرآنی کا انکار کرتا ہے اس سے اس کا کفر لازم آتا ہے یہ بات دوسرے صحابیوں کے لئے نہیں ہے۔ (مدارک) جب بعض لوگوں نے تبوک کی طرف نکلنے سے جان چرائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا رسول کو تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے اگر تم مدد نہ کرو گے تو کچھ پرواہ نہیں اللہ اپنے رسول کی اس سے پہلے مختلف موقعوں پر مدد کرچکا ہے اس کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے اذھما فی الغار کہہ کر واقعہ ہجرت کی طرف اشارہ فرمایا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ہجرت کو قدرے تفصیل سے لکھ دیا جائے۔ واقعہ ہجرت کی تفصیل : ہجرت کے واقعہ کی تفصیل حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایتوں سے اس طرح منقول ہے، ہجرت سے پہلے آپ ﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ دو پہاڑوں کے درمیان کنکریلی زمین ہے اور اس سر زمین پر کھجوریں بکثرت ہیں وہاں کے لئے ہجرت کا حکم ہوا ہے، آنحضرت ﷺ کا یہ خواب سن کر کچھ لوگ مدینہ کو اور کچھ حبشہ کو چلے گئے، جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کافروں نے بہت تنگ کیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چبوترہ مسجد کی طرح بنا لیا تھا اسی پر نماز پڑھتے اور تلاوت فرماتے جب کفار نے اس سے بھی منع کیا تو مدینہ کا قصد کیا اور آپ ﷺ سے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کچھ روز اور ٹھہر جائو شاید مجھ کو بھی ہجرت کی اجازت مل جائے، ایک روز خلاف عادت ٹھیک دوپہر کے وقت آپ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ مجھ کو بھی مدینہ کی ہجرت کا حکم ہوگیا ہے حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں کیا اس ناچیز کو بھی ہم رکابی کا شرف حاصل ہو سکے گا فرمایا : ہاں، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ یہ خوشخبری سن کر فرط مسرت سے رو پڑے حضرت عائشہ فرماتے ہیں کہ میں اس سے پہلے نہیں جانتی تھی کہ انسان فرط مسرت میں بھی رو پڑتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں ایک آپ کے لئے ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے وہ اونٹنی میں قیمتاً لے لوں گا۔ چناچہ جب رات کے وقت قرار داد کے مطابق آپ کے مکان کو گھیر لیا کہ جب آپ سو جائیں تو آپ پر حملہ کردیا جائے آپ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ میری سبز چادر اوڑھ کر میرے بستر پر لیٹ جائو اور ڈرو مت یہ لوگ تم کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچا سکیں گے۔ قریش کی امانتوں کو واپسی کا حکم : قریش اگرچہ آپ کے دشمن تھے مگر آپ کو '' صادق الامین '' سمجھتے تھے آپ نے وہ سب امانتیں حضرت علی کے سپرد کیں اور حکم دیا کہ صبح کو یہ امانتیں لوگوں کو پہنچا دینا آپ ﷺ گھر میں سے ایک مشت خاک لے کر برآمد ہوئے اور اس مشت خاک پر سورة یٰسین کی شروع کی تین آیتیں '' فاغشیناھم فھم لا یبصرون '' تک پڑھ کر ان کے سروں پر ڈال دی، اللہ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آپ ان کے سامنے سے گذر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے، آپ کا شانہ مبارک سے نکل کر ابوبکر صدیق کے مکان پر تشریف لے گئے، حضرت ابوبکر صدیق کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء ؓ نے سفر کے لئے ناشتہ تیار کیا عجلت میں رسی نہ ملنے پر اپنا پٹکا پھاڑ کر ناشتہ دان باندھا اسی روز سے حضرت اسماء '' ذات النطاقین '' کے نام سے موسوم ہوئیں، عبد اللہ بن ابوبکر دن بھر مکہ میں رہتے اور رات کو آکر قریش کی خبریں بیان کرتے، عامر بن فہیرہ ابوبکر ؓ کے آزاد کردہ غلام عشاء کے وقت آپ دونوں حضرات کو بکر کا دودھ پلاتے جو دن بھر آس پاس ہی بکریاں چرایا کرتے تھے، عبد اللہ بن اریقط نے مزدوری پر رہبری کے فرائض انجام دئیے۔ غار ثور کی طرف روانگی : الغرض دونوں حضرات رات ہی میں غار ثور کی طرف روانہ ہوئے، جب آپ دونوں حضرات غار ثور پر پہنچے تو حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ذرا ٹھہریں میں پہلے اندر جا کر غار کو صاف کر دوں۔ حضرت ابوبکر ؓ کی افضلیت : دلائل بیہقی میں ضبة بن محصن سے مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے جب حضرت ابوبکر ؓ کا ذکر آتا تو یہ فرماتے کہ ابوبکر کی ایک رات اور ایک دن عمر کی تمام عمر کی عبادت سے کہیں بہتر ہے رات تو غار ثور کی اور دن وہ کہ جب نبی ﷺ کی وفات ظاہری ہوئی تو عرب کے بہت سے قبائل زکوٰة کی ادائیگی کا انکار کر کے مرتد ہوگئے اور ابوبکر نے ان سے لڑنے کا ارادہ کیا تو میں اس وقت ابوبکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خیر خواہانہ عرض کیا اے خلیفہ رسول آپ ذرا نرمی کیجئے اور تالیف سے کام لیجئے تو ابوبکر نے غصہ ہو کر فرمایا جَبَّار فی الجاھلیة و خوار فی الاسلام، اے عمر زمانہ جاہلیت میں تو بہادر تھا اب کیا اسلام میں آکر بزدل ہوگیا۔ حضرت ابوبکر نے اول غار کو صاف کیا بعد ازاں آپ ﷺ غار میں تشریف لے گئے۔ اور باذن الٰہی غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تنا، یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی مذکور ہے۔ (سیرت مصطفوی) مشرکین مکہ غار ثور کے دہانے پر : جب مشرکین مکہ نشان شناسوں کی مدد سے غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئے اور نشان شناس نے کہہ دیا کہ قدموں کے نشان یہیں تک ہیں، اسی غار میں ہوں گے، تلاش کرنے والی پارٹی نے جب غار ثور کے دہانے پر مکڑی کا جالا دیکھا تو نشان شناس کو بیوقوف بنایا اور کہا اگر اس غار میں کوئی داخل ہوا ہوتا تو کیا یہ مکڑی کا جالا باقی رہ سکتا تھا۔ فَرَأ وعلی بابہ نسیج العنکبوت فقالوا لو دخل ھنالم یکن نسیج العنکبوت علی بابہ۔ تو غار کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھ کر کہا کہ اگر کوئی اس میں جاتا تو غار کے دہانہ پر مکڑی کا جالا باقی نہ رہتا (حافظ عسقلانی اور ابن کثیر نے اس روایت کو حسن کہا ہے ) ۔ مشرکین مکہ کی جانب سے دو سو اونٹوں کے انعام کا اعلان : جب مشرکین مکہ مایوس ہوگئے تو انہوں نے آپ دونوں کو گرفتار کرنے والے کے لئے دو سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کردیا، اس انعام کی لالچ میں ایک شخص سراقہ بن مالک بن جعشم نے گھوڑے پر چڑھ کر آپ کا پیچھا کیا اور وہ جب آپ ﷺ کے قریب پہنچا تو اس کا نصف گھوڑا زمین میں دھنس گیا، آپ ﷺ سے امان چاہی تو آپ نے امان دے دی اور اس کا گھوڑا زمین سے نکل گیا سراقہ ایمان لا کر اور امان لے کر واپس ہوگیا اسی سفر ہجرت کے دوران ام معبد کا واقعہ پیش آیا۔ ام معبد ؓ کا واقعہ : راستہ میں ام معبد کے خیمہ پر گذر ہوا، ام معبد ایک نہایت شریف اور مہمان نواز خاتون تھیں، قافلہ نبوی نے ام معبد سے گوشت اور کھجوریں خریدنے کی غرض سے کچھ دریافت کیا مگر کچھ نہ پایا نبی ﷺ کی نظر خیمہ میں ایک بکری پر پڑی فرمایا یہ کیسی بکری ہے ؟ ام معبد نے عرض کیا یہ بکری لاغر اور دبلی ہونے کی وجہ سے بکریوں کے گلے کے ساتھ جنگل نہیں جاسکتی، آپ نے فرمایا اس میں کچھ دودھ ہے ام معبد نے عرض کیا اس میں دودھ کہاں ؟ آپ نے فرمایا مجھے اس کا دودھ دوہنے کی اجازت دو ، کہا اجازت ہے، آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس کے تھن پر اپنا دست مبارک رکھا تھن دودھ سے بھر گئے آپ نے دودھ نکالا ایک بڑا برتن جس سے آٹھ دس آدمی پی سکیں بھر گیا، اول آپ نے ام معبد کو دودھ پلایا اس کے بعد اپنے ساتھیوں کو پلایا اور آخر میں آپ نے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ نے پھر دودھ دوہا یہاں تک کہ وہ بڑا برتن دوبارہ بھر گیا وہ برتن ام معبد کو عطا کیا اور ام معبد کو بیعت کر کے روانہ ہوئے شام کے وقت جب ام معبد کے شوہر ابو معبد بکریاں چرا کر آئے تو دیکھا کہ ایک بڑا برتن دودھ سے بھرا ہوا رکھا ہے، بہت تعجب سے معلوم کیا اے ام معبد یہ دودھ کہا سے آیا ہے ؟ اس بکری میں تو کہیں دودھ کا نام تک نہیں، ام معبد نے عرض کیا آج یہاں سے ایک مرد مبارک گذرا خدا کی قسم یہ سب اسی کی برکت ہے اور پورا واقعہ بیان کیا، ابو معبد نے کہا ذرا ان کا کچھ حلیہ تو بیان کرو، ام معبد نے آپ کا حلیہ مبارک بیان کیا، پوری تفصیل مستدرک میں مذکور ہے۔ ابو معبد نے کہا میں سمجھ گیا واللہ یہ وہی قریشی شخص ہے میں بھی ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا، مگر تلاش بسیار کے بعد بھی آپ سے ملاقات نہ ہوسکی، راستہ میں بریدة الاسلمی اپنے 70 آدمیوں کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے، اور آپ کے ساتھ جھنڈا ہاتھ میں لے کر آگے آگے چل رہے تھے، آپ کی روانگی کی خبر اہل مدینہ کو مل چکی تھی اہل مدینہ کا ہر فرد بشر آپ کے شوق دیدار میں روزانہ مقام حرہ پر آکر کھڑا ہوجاتا جب دوپہر ہوجاتا تو مایوس ہو کر واپس چلا جاتا یہ روزانہ کا معمول تھا، ایک روز انتظار کے بعد واپس ہو رہے تھے کہ ایک یہودی نے ایک ٹیلے پر سے آپ کو آتے ہوئے دیکھا بےاختیار پکار کر یہ کہا یا بنی قیلہ ھذا جدکم، اے بنی قیلہ یہ ہے تمہاری خوش نصیبی کا سامان، اس خبر کے سنتے ہی انصار والہانہ وبے تابانہ آپ کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے اور نعرہ تکبیر سے بنی عمرو اور بنی عوف کی تمام آبادی گونج اٹھی۔ مسجد قبا کا قیام : مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک آبادی ہے جسے قبا کہتے ہیں، یہاں انصار کے کچھ خاندان آباد تھے جب آپ قبا پہنچے تو آپ نے قبیلہ کے سردار کلثوم بن ہدم کے مکان پر قیام فرمایا، اور ابوبکر صدیق خبیب بن اساف کے مکان پر ٹھہرے، حضرت علی ؓ بھی مشرکین مکہ کی امانتیں واپس کر کے مقام قبال میں آملے اور آپ ﷺ کے پاس قیام فرمایا، قبا میں سب سے پہلے جو کام آپ نے کیا وہ ایک مسجد کی بنیاد تھی، سب سے پہلے آپ نے اپنے دست مبارک سے ایک پتھر لا کر قبلہ رخ رکھا آپ کے بعد ابوبکر نے اور ان کے عمر نے ایک پتھر رکھا اس کے بعد دیکھ حضرات نے پتھر لا کر رکھنے شروع کئے اور تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا، (مزید تفصیل کے لئے کتب سیرت کی طرف رجوع کریں ) ۔ (سیرت مصطفی)
Top