Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 44
لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
لَا يَسْتَاْذِنُكَ : نہیں مانگتے آپ سے رخصت الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنین جان (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالْمُتَّقِيْنَ : متقیوں کو
جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا پرہیزگاروں سے واقف ہے۔
لا یَسْتَاذِنُکَ الَّذِیْنَ یؤمنون باللہ الخ جب منافقوں نے جہاد میں عدم شرکت کی اجازت چاہی اور آپ نے اجازت دے دی جیسا کہ اوپر مذکور ہے، اب اس کے بعد مومنین مخلصین کا ذکر فرمایا، کہ جو مومنین مخلصین ہیں آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت نہیں چاہتے۔ انہیں تو یہی پسند ہے کہ جس طرح ممکن ہو جان سے مال سے جہاد میں شریک ہوں بلکہ اگر ان کو رخصت دے دی جائے تو ان پر شاق گذرتی ہے، چناچہ صحیح بخاری کے حوالہ سے سعد بن عبادہ کی حدیث گذر چکی ہے کہ حضرت علی ؓ کو آنحضرت نے غزوہ تبوک ہی میں حکم دیا کہ تم مدینہ ہی رہ کر اہل و عیال کی نگرانی کرو حضرت علی پر یہ حکم نہایت گراں گذرا، جب آنحضرت ﷺ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے علی کیا تم کو مجھ سے وہ نسبت پسند نہیں جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نیابت کی تھی، یہ سنکر حضرت علی مدینہ میں رہ جانے پر رضا مند ہوئے۔ منافقوں کی حالت کا بیان : وَلَوْ ارادوا الخروج لاَ عدّوا لَہ عُدَّةً ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا حال بیان فرمایا ہے، کہ ان لوگوں کا ارادہ اس لڑائی میں شریک ہونے کا پہلے ہی سے بالکل نہیں تھا، اگر ان کا ارادہ ہوتا تو دیگر لوگوں کی طرح یہ بھی کچھ نہ کچھ تیاری کرتے، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ اللہ تعالیٰ کو بھی ان لوگوں کا شریک ہونا پسند نہیں تھا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بزدلی اور سستی پیدا فرما دی، ان لوگوں کے جہاد میں شریک نہ ہونے میں بڑی مصلحت تھی، اس لئے کہ اگر یہ لوگ لڑائی میں شریک ہوتے تو مدد کے بجائے فتنہ برپا کرتے مسلمانوں کو خوف دلاتے ایسی ایسی باتیں اور حرکتیں کرتے کہ مسلمانوں کے دل ٹوٹنے لگتے ان میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہوتی، اس لئے کہ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو تمہاری جاسوسی کرتے ہیں اور تمہاری پوشیدہ خبریں دشمن کو پہنچاتے ہیں، قتادہ ؓ کے قول کے مطابق اگرچہ بعض مفسرین نے وفیکم سماعون لھم، کی تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ان منافقوں کی باتیں سنتے اور مانتے ہیں لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں قتادہ کے اس قول کو ضعیف ٹھہرایا ہے، اس لئے مجاہد کے صحیح قول کے مطابق پہلی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے۔ منافقوں نے ہمیشہ نازک موقع پر دھوکا دیا ہے : غزوہ احد کے موقع پر عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تین سو مسلمانوں کی جمیعت کو میدان سے واپس لے آیا تھا، اسی عبد اللہ بن ابی نے غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر اپنے قبیلے کے انصار کو بہکایا تھا اور کہا تھا کہ واپس مدینہ جانے کے بعد مہاجروں کو مدینہ سے نکال دیں گے۔
Top