Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر 60 تا 66 ترجمہ : صدقات (واجبہ) (مثلاً ) زکوٰة فرض صرف ان فقراء کے لئے ہیں جو اتنی مقدار بھی نہ پائیں جو اپنی حاجت میں صرف کر سکیں (یعنی ان کے پاس مال بالکل نہ ہو) اور مساکین کے لئے ہے جو بقدر کفایت مال نہ پائیں، اور صدقات کے کارکنوں کے لئے اور صدقات (زکوٰة) وصول کرنے والوں کے لئے ہے، اور (مستحقین) پر تقسیم کرنے والوں کے لئے ہے، اور کاتبین کے لئے ہے اور (ارباب اموال کو) جمع کرنے والوں کے لئے ہے، اور ان لوگوں کے لئے ہے جن کی تالیف قلب مقصود ہے تاکہ وہ اسلام لے آئیں یا اپنے اسلام پر ثابت قدم رہیں، یا ان کے امثال اسلام لے آئیں یا مسلمانوں کا دفاع کریں، یہ (چار) قسمیں ہیں پہلی اور آخری قسم کو آج کل امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک نہیں دیا جائے گا، اس لئے کہ اسلام قوی ہوگیا ہے، بخلاف باقی دونوں قسموں کے صحیح مذہب کے مطابق ان کو دیا جائے گا، اور مکاتبین کو آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے لئے ہے جنہوں نے غیر معصیت کے لئے قرض لیا ہو، یا (معصیت کے لئے لیا ہو مگر) معصیت سے توبہ کرلی ہو، اور ان کے پاس قرض ادا کرنے کے لائق مال نہ ہو، اور آپس میں صلح کرانے کے لئے اگرچہ وہ مالدار ہوں، اور مجاہدین کے لئے ہے یعنی ایسے مجاہدین کے لئے جو جہاد میں مشغول ہوں اور وہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کا مال غنیمت میں حصہ نہ ہو، اگرچہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں، اور ایسے مسافروں کے لئے ہے کہ جن کے لئے مال سے منقطع ہونے کی وجہ سے سفر جاری رکھنا دشوار ہوگیا ہو اور یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ حکم ہے (فریضة) فعل مقدر (فَرَضَ ) کی وجہ سے منصوب ہے، اللہ اپنی مخلوق (کی ضرورتوں) سے بخوبی واقف ہے اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے لہٰذا مذکورہ مصارف کے علاوہ میں صرف کرنا جائز نہیں ہے اور مذکورہ اصناف کے موجود ہوتے ہوئے ان میں سے کسی کو محروم نہیں کیا جائے گا، لہٰذا امام وقت کو چاہیے کہ ان میں برابر تقسیم کرے اور امام کو اختیار ہے کہ کسی ایک صنف کو دوسری صنف پر ترجیح دے دے اور لام سے تمام افراد کے استغراق کا وجوب مستفاد ہوتا ہے، لیکن صاحب مال پر بوقت تقسیم تمام افراد کا احاطہ کرنا دشوار ہونے کی وجہ سے واجب نہیں ہے، بلکہ (اصناف ثمانیہ میں سے) ہر صنف کے تین افراد کو دینا کافی ہے اس سے کم میں کافی نہ ہوگا، جیسا کہ جمع کے صیغوں سے مستفاد ہوتا ہے، اور سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ جس کو زکوٰة کا مال دیا جائے اس کا مسلمان ہونا شرط ہے، اور یہ بھی شرط ہے کہ ہاشمی اور مطّلبی سید نہ ہو، اور ان منافقین میں وہ لوگ بھی ہیں جو نکتہ چینی کر کے اور (رازوں کو) افشا کر کے نبی کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اور جب ان کو نکتہ چینی سے آپس میں اس خیال سے منع کیا جاتا ہے مبادا ایسا نہ ہو کہ آپ کو اطلاع ہوجائے تو کہتے ہیں وہ تو کان ہیں ہر بات کو سن لیتے ہیں اور (سچ) مان لیتے ہیں اور جب ہم (بھی) ان سے قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم نے ایسی بات نہیں کہی تو ہماری بات کو بھی سچ مان لیں گے، (ان سے) کہو تمہارے بھلے کی باتیں سنتے ہیں نہ کہ تمہارے نقصان کی باتیں، اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی اس بات میں تصدیق کرتے ہیں جس کی اس کو خبر دیتے ہیں نہ کہ دوسروں کی، اور (للمؤمنین) میں لام زائدہ ایمان تسلیم اور ایمان تصدیق میں فرق کرنے کے لئے ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لئے رحمت ہے رحمة رفع کے ساتھ ہے اذن پر عطف کرتے ہوئے، اور جر کے ساتھ ہے خیر پر عطف کرتے ہوئے، اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے اے ایمان والو ! رسول کو ایذا کی اس بات کے بارے میں جو ان کی طرف سے تم کو پہنچی ہے تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھا جاتے ہیں کہ ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی، تاکہ وہ تم کو خوش کردیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ ان کو طاعت کے ذریعہ خوش کریں، اگر وہ سچے مومن ہیں دونوں کی رضا مندی کے لازم ملزوم ہونے کی وجہ سے (یرضوہ) کی ضمیر کو واحد لائے ہیں، یا اللہ کی یا رسول اللہ کی خبر محذوف ہے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھتا ہے کہ ان کی سزا نار جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے بڑی رسوائی کی بات ہے منافق اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان مومنین پر کوئی سورت نازل ہوجائے جو ان پر اس نفاق کو ظاہر کر دے جو ان کے دل میں ہے اور وہ اس کے باوجود استہزاء کرتے ہیں (اے نبی) کہہ دو (اور) مذاق اڑائو امر تہدید کے لئے ہے، اللہ اس نفاق کو ظاہر کرنے والا ہے جس کے ظاہر کرنے سے تم ڈرتے ہو اور اگر آپ ان سے آپ کے اور قرآن کے استہزاء کے بارے میں دریافت فرمائیں حال یہ کہ وہ آپ کے ساتھ کی تبوک کی طرف جا رہے ہوں قسمیہ بات ہے کہ وہ عذر پیش کرتے ہوئے یقینا کہہ دیں گے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے، تاکہ ہنسی مذاق میں سفر کٹ جائے اور یہ (یعنی استہزاء) ہمارا مقصد نہیں تھا آپ ان سے کہو کہ کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو اس کے بارے میں عذر نہ بیان کرو تم نے ایمان کے بعد کفر کیا یعنی ایمان کے اظہار کے بعد تمہارا کفر ظاہر ہوگیا اگر تم میں کی ایک جماعت کو اس کے اخلاص اور توبہ کی وجہ سے معاف کردیا جائے جیسا کہ مخشی بن حمیر کو تو ایک جماعت کو ہم ضرور سزا دیں گے اس لئے کہ وہ مجرم ہیں تعذب تا اور نون کے ساتھ ہے اور ن (نعفُ ) یاء کے ساتھ مبنی للمفعول ہے اور نون کے ساتھ مبنی للقاعل ہے، (یعنی) نفاق اور استہزاء پر مصر ہیں۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : اِنَّمَا الصّدقات للفقراء والمساکین، اِنَّمَا کلمہء حصر ہے، یہاں قصر موصوف علی الصفت کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی صدقات (زکوٰة) کا مصرف صرف مذکورین ہیں ان کے علاوہ اور کوئی نہیں، لِلْفقراء میں لام سے متعلق بڑی قیل وقال ہوئی ہے، بعض نے کہا کہ لام تملیک کے لئے ہے جیسا کہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہی مسلک ہے، اور بعض نے کہا کہ اختصاص و استحقاق کے لئے ہے اس کے قائل امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ ہیں، (بحر) الفقراء والمساکین، دونوں لفظوں کی تعبیر و تفسیر میں متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں۔ حنفیہ نے کہا ہے کہ '' فقیر '' وہ نادار ہے جو سوال نہ کرے اور '' مسکین '' وہ نادار ہے جو سوال کرے، اور ابن عباس ؓ ، حسن بصری، جابر بن زید، مجاہد، زہری سے بھی یہی منقول ہے، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کا قول ان حضرات کے قول کے مطابق ہے (جصاص) لفظ فقیر اور مسکین کی تشریح و تعبیر میں خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مسئلہ زکوٰة پر کوئی اثر نہیں پڑے گا زکوٰة دونوں کو دینا جائز ہوگا، البتہ وصیت کے مسئلہ میں فرق پڑے گا، اگر فقراء کے لئے وصیت کی ہے تو وہی مستحق ہوں گے اور اگر مساکین کے لئے کی ہے تو صرف وہ مستحق ہوں گے۔ مصارف ثمانیہ کے بارے میں ایک ازہری عالم کی مفید بحث : زکوٰة کے مصارف آٹھ ہیں : (1) فقیر وہ شخص ہے کہ جو اتنے مال کا مالک نہ ہو جو اس کی ضرورت کے لئے کافی ہو، بایں طور کہ اپنی ضرورت کی مقدار سے نصف سے کافی کم کا مالک ہو، مثلاً اس کی ضرورت دس درہم کی ہے مگر اس کے پاس صرف دو یا تین درہم ہیں۔ (2) المسکین، مسکین وہ شخص ہے کہ جس کے پاس مال تو ہو مگر بقدر ضرورت نہ ہو، مثلاً اس کو دس درہم کی حاجت ہے مگر اس کے پاس سات درہم ہیں۔ (3) العاملین علیھا، یعنی زکوٰة وصولی کے سلسلہ کے کارندے مثلاً کاتب، حاسب وغیرہ۔ (4) المؤلفة قلوبھم، وہ نو مسلم جن کا اسلام ابھی راسخ نہیں ہوا ہے یا وہ لوگ کہ جن کو تالیف قلوب کے طور پر دینے سے دیگر حضرات کے اسلام کی توقع کی جاسکتی ہو۔ (5) الرقاب، مکاتبین کو آزاد کرانے میں۔ (6) الغارم، وہ شخص کہ جس نے جائز مقصد کے لئے قرض لیا اور اب وہ ادائیگی پر قادر نہیں ہے یا اصلاح ذات البین کی وجہ سے مقروض ہوگیا اگرچہ وہ غنی ہو۔ (7) اھل السبیل وہ مالدار کہ جو جہاد میں شرکت کے خواہشمند ہیں۔ (8) ابن السبیل، مباح سفر کا مسافر جو اپنے شہر سے دور ہو ایسا شخص بھی زکوٰة کا مستحق ہے تاکہ وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکے۔ (اعراب القرآن للدر ویش ملخصاً ) تفسیر وتشریح مؤلفة القلوب، سے مراد ایسے غیر مسلم ہیں جن کے مسلمان ہوجانے کی امید ہو یا ان کے شر و فساد سے بچنا مقصود ہو، اور ایسے مسلمان جو ضعیف الایمان ہوں اور اس طریقہ سے ان کے ایمان کے قوی ہونے کی امید ہو، غرض یہ کہ انسان کا ہر وہ گروہ جس کی طرف سے اسلامی حکومت کو کوئی خطرہ درپیش ہو۔ مورخ ابن حبیب نے سولہ شخصوں کے نام کی ایک فہرست دی ہے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مؤلفة القلوب قرار دے کر ان میں سے چودہ کو سو سو (100، 100) اونٹ اور باقی کو پچاس پچاس اونٹ عطا کئے تھے، اس فہرست کا آغاز ابو سفیان بن حرب اموی اور معاویہ بن ابی سفیان کے نام سے ہوتا ہے (کتاب المخبر ص 473، بحوالہ ماجدی) اکثریت کا قول ہے کہ یہ حکم آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے لئے مخصوص تھا، اور اس رائے میں حنفیہ کے ساتھ مالکیہ اور امام ثوری اور امام اسحاق بن راہویہ اور امام شعبی اور عکرمہ تابعی بھی ہیں۔ (بیضاوی، ماجدی) علماء محققین کی رائے دربارہ مؤلفة القلوب : بعض علماء محققین نے کہا ہے کہ تعامل صحابہ سے یہ حکم منسوخ نہیں ہوا تھا بلکہ محض بہ سبب عدم ضرورت وقتی رفع حکم تھا اور استغناء اور حکم کا اجر اہر دور میں امام المسلمین کی رائے اور مصلحت کے تابع رہے گا۔ والصحیح اِنَّ ھذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتالّف قوماً علی ھذا الوصف ویدفع الیھم، ھم المؤلفة لانّہ لا دلیل علی نسخہ البتة۔ (کبیر، ماجدی) فاضل گیلانی کی تحقیق : انہی مصارف میں ایک مد ان لوگوں کی بھی ہے جو محض مالی کمزوریوں کی وجہ سے اسلامی حکومت اور اسلام کی مخالفت کرتے ہیں، جیسا کہ اس زمانہ میں سیا سی شورش پسندوں کے ایک گروہ کی یہی حالت ہے، ان لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے بھی صدقات کے مصارف میں قرآن نے مؤلفة القلوب کی ایک مد رکھی ہے، اگرچہ عام طور پر فقہاء کہتے ہیں کہ مصرف صرف ابتداء اسلام کی حد تک محدود تھا، اور اب ساقط ہوگیا، دلیل میں حضرت عمر ؓ کا اثر پیش کرتے ہیں کہ آپ نے مؤلفة القلوب کے بعض افراد کو دینے سے اس بنا پر انکار کردیا تھا کہ اب اسلام اتنا قوی ہوچکا ہے کہ ان لوگوں کی ضرورت نہیں رہی نبی ﷺ کی رحلت کے بعد عُیَیْنہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے انہوں نے آپ سے ایک زمین طلب کی آپ نے عطیہ کا فرمان لکھ دیا انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لئے اعیان صحابہ سے بھی دستخط کرا لیں چناچہ گواہیاں ہوگئیں مگر جب یہ لوگ گواہی کے لئے حضرت عمر کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمان پڑھ کر ان کے روبروا پھاڑ دیا اور ان سے کہہ دیا کہ بےتم لوگوں کی تالیف قلوب کے لئے آپ ﷺ تم کو دیا کرتے تھے مگر اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بےنیاز کردیا ہے اس پر وہ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر گئے اور طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر ؟ لیکن نہ ابوبکر ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا نہ دوسرے صحابہ نے عمر ؓ کی رائے سے اختلاف کیا حالانکہ قصہ صرف اس قدر ہے کہ چند خاص لوگوں کو دینے سے حضرت عمر ؓ نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھا کہ، اِنَّ اللہ اَعذّ الاسلام فذھَبَا۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت عطا فرما دی لہٰذا تم دونوں جائو (کچھ ملیگا) لیکن اس کا یہ مطلب قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہر شخص کے لئے حضرت عمر نے اس مد کو ساقط کردیا غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن نے جس مصرف کو منصوص کیا ہے اس کو اولاً حضرت عمر ؓ منسوخ ہی کیسے کرسکتے ہیں ؟ نیز ایک ایسی خبر واحد سے قرآن کے ایک قانون پر خط نسخ نہیں پھیرا جاسکتا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امام اور حکومت وقت کی صواب دید پر موقوف ہے، جس وقت لوگوں کے لئے اس کی ضرورت سمجھے دے اور جن کے لئے ضرورت نہ سمجھے نہ دے۔ (اسلام معاشیات بحوالہ ماجدی) فقیہ ابن عربی نے دونوں قول نقل کر کے ترجیح دوسرے ہی قول کو دی ہے، اور کہا ہے کہ اسلام جس طرح اس دور میں قوی اور معزز ہوگیا تھا اب پھر ضعیف ہوگیا ہے۔ مقروضوں کے ساتھ اسلام کی ہمدردی : دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے مقروضوں کے ساتھ عملی ہمدردی کا سبق دیا ہے اور اس گروہ کو بھی فقراء اور حاجت مند سمجھ کر زکوٰة کا مستحق قرار دیا ہے۔ مقروض دنیا کا وہ مظلوم ہے جس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک تو بڑی بات ہے اس وقت تک دنیا کی حکومتوں نے ان کو ستانے والوں اور ان پر تشدد کے پہاڑ توڑنے والے قرض خواہوں کو صرف مالی نہیں بلکہ قانونی امداد و تعاون کو اپنا فریضہ قرار دے رکھا ہے ہر حکومت کی پولیس فورس اور فوجی وعسکری قوت اس کے لئے تیار رہتی ہے کہ مقروضوں کے ذمہ قرض خواہوں کا جو قرض ہے صرف اصل ہی نہیں بلکہ سود و رشوت کے ساتھ اس سے وصول کرایا جائے، خواہ مقروض کی ساری جائداد اور گھر کا سارا اثاثہ ہی کیوں نہ نیلام ہوجائے یہ ایک واقعہ ہے۔ وفی الرقاب، فکّ رقاب کہتے ہیں مکاتب کی گردن چھڑانے (آزاد کرنے میں مدد کرنا) اگر مولیٰ نے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ تو اگر اتنی رقم لا کر دے دے تو تو آزاد ہے اس غلام کو مکاتب کہتے ہیں ایسے غلام کو مال زکوٰة دے کر مدد کی جاسکتی ہے اس پر علماء متفق ہیں اور اعتاق کا مطلب ہوتا ہے غلام خرید کر آزاد کرنا، زکوٰة کے مال کو اس صورت میں خرچ کرنے میں اختلاف ہے، حضرت علی ؓ سعید بن جبیر، لیث، ثوری، ابراہیم نخعی، حنفیہ، شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس ؓ ، حسن بصری، امام مالک، امام احمد جائز کہتے ہیں۔ وفی سبیل اللہ، لفظی معنی کے اعتبار سے اس مد میں ہر وہ خرچ آجاتا ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہو لیکن مفسرین نے احادیث نبوی اور آثار صحابہ کی روشنی میں خرچ کی اس مد کو عموماً مجاہدین تک محدود رکھا ہے۔ اراد بھا الغزاة فلھم سھم من الصدقة (معالم) فمنھم الغزاة الذی لا حق لھم فی الدیوان (ابن کثیر) اور بعض حضرات نے اس میں دینی طالب علموں کو بھی شامل کیا ہے، قیل المراد طلبة العلم واقتصر علیہ فی الفتاویٰ ظھیریہ۔ مصارف ثمانیہ میں سے ہر صنف کو دینا ضروری ہے یا بعض کو دینا بھی کافی ہوسکتا ہے ؟ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مسلک : ایک مرتبہ زیادی بن حارث آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ صدقہ میں سے کچھ مجھے بھی عنایت فرما دیجئے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے صدقات میں کسی نبی کا حکم پسند نہیں کیا ہے بلکہ اس نے خود ہی آٹھ مصرف بتلا دئیے ہیں اگر تم ان آٹھویں میں سے ایک بھی ہو تو صدقہ کے مستحق ہو گے ورنہ نہیں، علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف ثمانیہ قرآن میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو زکوٰة دی جائے یا ان میں سے بعض کو دینا بھی کافی ہوسکتا ہے ؟ زیاد بن حارث کی مذکورہ حدیث کی بنا پر امام شافعی اور ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ ان آٹھوں میں سے ایک بھی ہو تو صدقہ کے مستحق ہو گے ورنہ نہیں، علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف ثمانیہ قرآن میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو زکوٰة دی جائے یا ان میں سے بعض کو دینا بھی کافی ہوسکتا ہے ؟ زیاد بن حارث کی مذکورہ حدیث کی بنا پر امام شافعی اور ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ ان آٹھوں قسموں پر صدقہ تقسیم کرنا چاہیے یہ حدیث ابو دائود میں ہے اور اس کی سند میں ایک راوی عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی کو اکثر علماء نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مصارف صدقات میں امام ابوحنیفہ و امام مالک رحمھما اللہ تعالیٰ کا مسلک : مذکورہ حدیث کی سند میں چونکہ عبد الرحمن بن زیاد ضعیف ہے اس لئے ان حضرات نے فرمایا کہ مذکورہ آٹھ اصناف میں سے سب کو دینا ضروری نہیں ہے اگر ایک کو بھی دے دیا جائے تو کافی ہوگا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد زکوٰة کے اصناف ثمانیہ بیان کرنے سے مصرف زکوٰة کو بیان کرنا ہے نہ کہ تعداد کو۔ زکوٰة و صدقہ واجبہ آپ ﷺ کی آل کے لئے جائز نہیں : صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ آنحضرت ﷺ کے لئے اور آپ ﷺ کی آل کے لئے حلال نہیں ہے، ظاہر روایت کے اعتبار سے یہ مذہب امام ابوحنیفہ کا ہے البتہ نفلی صدقہ کو آل محمد کے حق میں جائز قرار دیا ہے، یہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے۔ سادات میں کون لوگ شامل ہیں ؟ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک فقط ہاشم بن عبد مناف کی اولاد آل محمد ہے، اور امام شافعی (رح) تعالیٰ اور ایک روایت میں امام احمد (رح) تعالیٰ کے نزدیک بنی مطلب بھی آل محمد میں شامل ہیں۔ زکوٰة کے علاوہ دیگر صدقات غیر مسلم کو بھی دئیے جاسکتے ہیں : زکوٰة کے علاوہ عام صدقات غیر مسلموں کو بھی دئیے جاسکتے ہیں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے '' تصدقوا علی اھل الادیان کلھا '' یعنی ہر مذہب والے پر صدقہ کرو، لیکن صدقہ زکوٰة کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو یمن بھیجنے کے وقت یہ ہدایت فرمائی تھی کہ زکوٰة مالدار مسلمانوں سے لی جائے اور غریب مسلمانوں کو دی جائے اس سے صاف ظاہر ہے کہ زکوٰة کے مستحق صرف مسلمان ہی ہیں۔ ایک مفید بحث : قرآن مجید میں تیسرا مصرف العاملین علیھا، بیان فرمایا ہے یہاں عاملین سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰة اور عشر وغیرہ لوگوں سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں یہ لوگ چونکہ اپنے تمام اوقات اس خدمت میں مشغول کرتے ہیں اس لئے ان کی ضروریات کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہے قرآن کریم کی اس آیت نے مصارف زکوٰة میں ان کا حصہ رکھ کر یہ متعین کردیا کہ ان کا حق الخدمت اسی مذکورة سے دیا جائے گا۔ اس میں اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدقات کی وصولی کا فریضہ براہ راست نبی ﷺ کو '' خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صدقةً '' کہہ کر سپرد فرمایا ہے، اس آیت کی رو سے مسلمانوں کے امیر پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے صدقات وصول کرے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ امیر بذات خود بغیر معاونین کے یہ کام انجام نہیں دے سکتا لہٰذا اس کو معاونین اور مددگاروں کی ضرورت ہوگی ان ہی معاونین کو والعاملین عَلَیْھا کے الفاظ سے تعبیر فرمایا، اسی حکم کی تعمیل میں حضور ﷺ نے بہت سے صحابہ کو صدقات وصول کرنے کے لئے مختلف خطوں میں بھیجا تھا، اور مذکورہ ہدایت کے مطا بق زکوٰة ہی کی حاصل شدہ رقم میں سے ان کو حق الخدمت دیا ہے، حالانکہ ان حضرات میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جو اغنیاء تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کسی غنی کے لئے حلال نہیں بجز پانچ شخصوں کے (1) ایک وہ جو جہاد کے لئے نکلا ہو اور وہاں اس کے پاس بقدر ضرورت مال نہیں اگرچہ اس کے گھر مال موجود ہو (2) دوسرے عامل صدقہ جو صدقہ وصول کرنے کی خدمت انجام دیتا ہو، (3) وہ شخص کہ اگرچہ اس کے پاس مال ہے مگر موجودہ مال سے زیادہ کا قرضہ ہے (4) وہ شخص جو صدقہ کا مال کسی غریب مسکین سے خرید لے، (5) وہ مالدار شخص جس کو کسی غریب شخص نے صدقہ سے حاصل شدہ مال بطور ہدیہ دے دیا ہو۔ عاملین صدقہ کو جو رقم دی جاتی ہے وہ صدقہ کے طور پر نہیں بلکہ معاوضہ خدمت کے طور پر دی جاتی ہے اسی لئے مالدار ہونے کے باوجود عاملین کے لئے اس کا لینا جائز ہے اس مد کے علاوہ اگر صدقہ کا مال دوسرے کسی کام کے معاوضہ میں دیا گیا تو وہ جائز نہ ہوگا، مصارف ثمانیہ میں عاملین ہی کی صرف ایک مد ہے جس میں حق الخدمت دینا جائز ہے۔ دو سوال اور ان کے جواب : اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اول یہ کہ مال زکوٰة کو معاوضہ خدمت کے طور پر کیسے دیا گیا ؟ دوسرے یہ کہ مالدار کے لئے یہ مال حلال کیسے ہوا ؟ ان دونوں سوالوں کا ایک ہی جواب ہے وہ یہ کہ عاملین حضرات فقراء کے وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے، جب عاملین نے زکوٰة کی رقم فقراء کے وکیل ہونے کی حیثیت سے وصول کرلی تو زکوٰة دینے والوں کی زکوٰة ادا ہوگئی، اب یہ پوری رقم ان فقراء کی ملک ہے جن کی طرف سے بطور وکیل انہوں نے وصول کی ہے، اب جو رقم حق الخدمت کے طور پر دی جاتی ہے وہ مالداروں کی طرف سے نہیں بلکہ فقراء کی طرف سے ہے اور فقراء کو اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اختیار ہے۔ ایک اہم سوال : اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فقراء نے تو ان کو وکیل و مختار بنایا نہیں، یہ ان کے وکیل کیسے بن گئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا سربراہ جس کو امیر کہا جاتا ہے وہ قدرتی طور پر من جانب اللہ پورے ملک کے فقراء کا وکیل ہوتا ہے کیونکہ ان سب کی ضرورت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے امیر الملک جن کو صدقات کی وصولی پر عامل بنا دے وہ سب ان کے نائب اور وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ عاملین کو جو کچھ حق الخدمت کے طور پر دیا گیا ہے وہ درحقیقت زکوٰة نہیں بلکہ زکوٰة جن فقراء کا حق ان کی طرف سے معاوضہ خدمت دیا گیا ہے۔ فائدہ جلیلہ : تفصیل مذکور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو اسلامی مدارس اور مکاتب وانجمنوں کے مہتمم حضرات یا ان کی طرف سے بھیجے ہوئے سفراء صدقات وزکوٰة وغیرہ مدارس وانجمنوں کے لئے وصول کرتے ہیں ان کا وہ حکم نہیں ہے جو عاملین صدقہ کا ہے لہٰذا سفراء حضرات کی تنخواہ مال زکوٰة سے دینا جائز نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل نہیں ہیں بلکہ اصحاب زکوٰة مالداروں کے وکیل ہیں ان کی طرف سے مال زکوٰة، زکوٰة کے مصرف میں لگانے کا اختیار دیا گیا ہے، اسی لئے ان کا قبضہ ہوجانے کے بعد بھی زکوٰة اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے مصرف میں صرف نہ ہوجائے سفراء کا حقیقةً فقراء کا وکیل نہ ہونا تو ظاہر ہے کہ ان کو کسی فقیر نے وکیل بنایا ہی نہیں ہے اور امیر المومنین کی طرف سے ولایت عامہ جو عاملین کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی ان کو حاصل نہیں ہے لہٰذا بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ ان کو اصحاب زکوٰة مالداروں کا وکیل قرار دیا جائے، اور جب تک وکیل کا قبضہ رہے وہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ خود مؤکل کا لہٰذا مصرف زکوٰة میں خرچ نہ ہونے تک زکوٰة ادا نہ ہوگی۔
Top