Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول ﷺ سے ہنسی کرتے تھے ؟
شان نزول : لئن سَالتھم، تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ سے اس آیت کا جو شان نزول مروی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک جماعت منافقین کی تھی کبھی تو وہ آپ ﷺ کی شان میں خفیہ طور پر بدگوئی کرتے اور کبھی قرآن کے بارے میں نکتہ چینی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو فورا مکر جاتے اور قسمیں کھانے لگتے، اور کہہ دیتے کہ ہم تو آپس میں یوں ہی ہنسی مذاق کر کے ٹائم پاس کر رہے تھے، ان کے حال کو ظاہر کرنے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل فرمایا۔ اِنْ یُّسعْفَ یاء کے ساتھ بصیغہ مجہول اور نون کے ساتھ بصیغہ معروف، اگر تم میں کی کوئی جماعت اس حرکت سے باز آجائے اور دل سے توبہ کرلے تو معاف کردیا جائے گا، جیسا کہ مخشی بن حمیر اور بعض نسخوں میں حجش بن حمیر ہے یہ شخص بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو اللہ کے رسول اور قرآن کا مذاق اڑایا کرتے مگر جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے سچے دل سے توبہ کرلی اور جنگ یمامہ میں شہید ہوا، اس نے دعاء کی تھی کہ اے اللہ تو مجھے اپنے راستہ میں شہادت نصیب فرما، کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے غسل دیا گیا یا مجھے کفنایا گیا یا مجھے دفن کیا گیا چناچہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کی جائے شہادت کہا تھی اور کس نے ان کو کفن دیا ؟
Top