Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے پیغمبر ﷺ ! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
آیت نمبر 73 تا 80 ترجمہ : اے نبی کافروں کے ساتھ تلوار سے اور منافقوں کے ساتھ زبان وبرہان سے جہاد کیجئے، اور ان منافقوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ اور خفگی کے ذریعہ سختی سے پیش آئیے، (آخر کار) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے اور منافق اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ گالی کی جو بات ہماری طرف سے آپ کو پہنچی ہے وہ ہم نے نہیں کہی، حالانکہ یقینا وہ کافرانہ بات انہوں نے کہی، اور اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے یعنی اسلام ظاہر کرنے کے بعد انہوں نے کفر ظاہر کیا، اور انہوں نے اس سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جو وہ نبی ﷺ کو قتل کے ارادہ سے تبوک سے لوٹتے وقت لیلة العقبہ میں کرنا چاہتے تھے اور وہ دس سے کچھ زائد لوگ تھے، اور عمار بن یاسر نے ان کی سواریوں کے منہ پر مار مار کر ان کو رخ پھیر دیا، جب وہ ڈھانٹے مار کر آپ ﷺ پر یکبارگی چڑھ آئے اور ان (منافقوں کو) جو بات ناپسند آئی وہ صرف یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو اپنے فضل (و عنایت) سے مال غنیمت کے ذریعہ ان کی شدید حاجت کے وقت غنی کردیا حاصل یہ ہے کہ ان (منافقوں) کو اس کی طرف سے جو کچھ پہنچا وہ اس کے سوا کچھ نہیں تھا، اور یہ ایسی بات نہیں کہ جس سے اظہار ناراضگی کیا جائے، اگر یہ لوگ نفاق سے توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر یہ لوگ ایمان سے اعراض کریں گے تو اللہ ان کو دنیا میں قتل کے ذریعہ اور آخرت میں آگ کے ذریعہ دردناک عذاب دے گا اور دنیا میں ان کا نہ کوئی یار ہوگا جو ان کی (اس کے عذاب سے) حفاظت کرسکے اور نہ مددگار جو ان کو بچا سکے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر ہمیں (اللہ) اپنے فضل سے (دولت) عطاء کرے گا تو ہم ضرور صدقہ (و خیرات کیا) کریں گے (لنصدقنّ ) میں دراصل تاء کا صاد میں ادغام ہے اور صالحین میں سے ہوجائیں گے اور یہ شخص ثعلبہ بن حاطب تھا کہ اس نے نبی ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ میرے لئے دعاء فرما دیا کہ اللہ مجھے خوب دولتمند کر دے، اور میں اس مال سے ہر حقدار کا حق ادا کردوں، چناچہ آپ نے دعاء فرما دی جس کی وجہ سے اس کے لئے فراخی کردی گئی تو وہ جمعہ و جماعت کا بھی تارک ہوگیا، اور زکوٰة دینی بند کردی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، جب ان کو اس نے اپنے فضل سے (مال) عطا کردیا تو اس میں بخیلی کرنے لگے اور اللہ کی اطاعت سے بھی روگردانی کرنے لگے حال یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اعراض کرنے والے ہی ہیں (اس بخل) کا انجام یہ ہوا کہ ان کے قلوب میں اللہ کے روبرو پیشی کے وقت تک کے لئے نفاق پیوست کردیا گیا، اور وہ قیامت کا دن ہے، اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ خلافی کی اور اس وجہ سے کہ وہ عہد کے بارے میں جھوٹ بولتے رہے پھر اس کے بعد آپ ﷺ کی خدمت میں زکوٰة (کا مال) لے کر حاضر ہوا، تو آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے منع کردیا ہے کہ میں تیرا مال قبول کروں، تو اس نے اپنے سر پر خاک ڈالنی شروع کردی، پھر اس (مال زکوٰة) کو ابوبکر صدیق کے پاس لے گیا تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت عمر ؓ کی خدمت میں (مال زکوٰة لے کر) حاضر ہوا، آپ نے بھی قبول نہ کیا، اس کے بعد حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا، اس کا انتقال حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں ہوا، کیا منافق جانتے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی راز کی باتوں کو جن کو وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور ان سرگوشیوں کو جن کو وہ آپس میں کرتے ہیں جانتا ہے، یقینا اللہ ان مغیبات کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، اور جب آیت (خُذْ مِنْ اَمْوالھم) نازل ہوئی تو ایک شخص (حضرت عبد الرحمن بن عوف) آئے اور بڑی مقدار (چار ہزار دینار) صدقہ کیا تو منافقوں نے کہا ریاکار ہے، اور ایک دوسرے شخص (حضرت ابو عقیل انصاری) آئے انہوں نے ایک صاع کھجور صدقہ کیا تو (منافقوں) نے کہا اللہ تو اس (قلیل صدقہ) سے مستغنی ہے، تو آئندہ آیت (الذین یلمزون الخ) نازل ہوئی، اور ان (دولتمند منافقوں) کو بھی خوب جانتا ہے (الذین) مبتداء ہے، جو خوش دلی سے دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں (صدقات) پر باتیں بگھارتے ہیں (نکتہ چینی) کرتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس (راہ خدا میں دینے کے لئے) اس کے سوا کچھ نہیں جو وہ محنت مزدوری کر کے لاتے ہیں تو یہ (دولتمند) ان کا مذاق اڑاتے ہیں اللہ نے بھی ان کا مذاق اڑایا یعنی ان کے مذاق اڑانے کا بدلہ دیا، (سخر اللہ منھم) مبتداء کی خبر ہے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اے محمد ﷺ تم ایسے لوگوں کے لئے معافی طلب کرو یا نہ کرو یہ آپ ﷺ کو استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے، آپ نے فرمایا مجھے (استغفار کرنے یا نہ کرنے) کا اختیار دیا گیا تو میں نے استغفار کو اختیار کیا، (رواہ البخاری) اگر تم ستر مرتبہ بھی ان لوگوں کو معاف کرنے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا اور ستر کے عدد سے کثرت استغفار میں مبالغہ کرنا مقصود ہے اور بخاری شریف میں ایک حدیث ہے اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اگر میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں تو وہ معاف کردے گا تو میں اس سے زیادہ کرتا، اور کہا گیا ہے کہ (ستر کا) عدد مخصوص مراد ہے بخاری کی حدیث کی وجہ سے کہ میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا، آپ ﷺ کو سواء علیھم استغفرت لھم اَمْ لَمْ تستغفرلھم، کے ذریعہ بتادیا گیا کہ ان سے مغفرت کو کاٹ دیا گیا ہے، اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہنمائی نہیں فرماتے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : المنفقون، (مفاعلة) اسم فاعل جمع مذکر غائب مرفوع، دو رخی کرنے والا شریعت کی اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو زبان سے اسلام کا اقرار کرے مگر دل میں اس کے برخلاف ہو، نفق کے اصل معنی خرچ ہوجانے اور چلے جانے کے ہیں، نَفَقَتِ الدراھم، روپیہ سب ختم ہوگیا، نافِقاء (ضَبّ ) گوہ کابل، سوراخ، جس کے کم از کم دو دہانے ہوتے ایک دہانے سے داخل ہوتی ہے شکاری اس سوراخ کی طرف متوجہ رہتا ہے گوہ دوسرے سوراخ سے نکل کر باہر چلی جاتی ہے منافق بھی زبانی اقرار سے اسلام میں داخل ہوتا ہے مگر ولی عقیدہ کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے آپ ﷺ کے زمانہ میں منافق مردوں کی تعداد (300) اور منافق عورتوں کی تعداد (170) تھی۔ (جمل) قولہ : بعضھم من بعض، بعضھم مبتداء ہے اور من بعض اس کی خبر ہے اور مِنْ اتصالیہ ہے۔ قولہ : یقبضون ایدیھم، قبض ید، بخل سے کنایہ ہے حقیقةً مٹھی بند کرنا مراد نہیں ہے اسی طرف مفسر علام نے عن الانفاق فی الطاعة کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ قولہ : ترکوا طاعتہ دونوں جگہ نسیان سے اس کے لازم معنی یعنی ترک مراد ہیں، اول جگہ اس لئے کہ نسیان پر مؤاخذہ نہیں ہے اور نہ قابل مذمت اور دوسری جگہ اس لئے کہ نسیان کی نسبت اللہ کی طرف محال ہے لہٰذا لازم معنی یعنی محروم کرنا مراد ہیں۔ قولہ : انتم ایّھا المنافقون، اس میں اشارہ ہے کہ کاف، کالذین میں مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے نہ کہ فعل محذوف کی وجہ سے محل نصب میں۔ قولہ : کخوضھم یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : منافقین کے خوض کو کفار کی ذوات کے ساتھ تشبیہ درست نہیں ہے اس لئے کہ خوض صفت ہے اور کفار ذوات۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے اور وہ مصدر ہے، ای خضتم خوضاً کخوضھم۔ قولہ : المؤتفکت، یہ مؤتفکة کی جمع ہے ایتفاک، (افتعال) مصدر ہے، اِفک مادہ ہے الٹی ہوئی، زیروزبر کی ہوئی مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں، جو بحر مردار کے ساحل پر آباد تھیں، جس کا مرکزی شہر سندوم یا سدوم تھا۔ قولہ : فکذبوھم اس اضافہ کا مقصد فما کان اللہ لیظلمھم کے عطف کو درست کرنا ہے تاکہ فاء تعقیبیہ کے ذریعہ عطف درست ہوجائے تفسیر وتشریح شان نزول : سابقہ آیات میں منافقوں کا حال اور ان کا انجام اس کے بعد مومنوں کے اوصاف اور آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ کا بیان تھا، اب آپ ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کفار اور منافقوں سے جہاد کرو، خطاب اگرچہ آپ ﷺ کو ہے مگر حکم پوری امت کو ہے اور یہ بھی حکم فرمایا کہ اپنی عادت کے خلاف ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے اطوار بیان فرمائے کہ ان کی عادت یہ ہے کہ ایک بات کہہ کر مکر جاتے ہیں، اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، چناچہ ان لوگوں نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخانہ اور کافرانہ کلمے نکالے جب اس کی خبر آپ ﷺ کو پہنچی تو صاف انکار کردیا، اس آیت کے شان نزول کے بارے میں مفسرین نے کئی سبب بیان کئے ہیں۔ پہلا سبب : کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت جلاس بن سوید بن صامت اور ودیعہ بن ثابت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس کی صورت یہ ہوئی کہ غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین کی مذمت کے بارے میں بکثرت آیات کا نزول ہونے لگا تو منافقوں نے کہا کہ اگر محمد کا کہنا ہمارے بھائیوں کے بارے میں کہ جو غزوہ میں شریک نہیں ہوئے ہیں صحیح ہے اگر وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ محمد ﷺ کہتے ہیں تو پھر تو ہم گدھے ہیں، عامر بن قیس رضی ؓ نے کہا اس میں کیا شک ہے واللہ محمد ﷺ صادق ومصدوق ہیں اور تو گدھے سے بھی بدتر ہے، اور عامر بن قیس نے اس کی اطلاع آپ ﷺ کو بھی کردی، جب جلاس آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپنی کہی ہوئی بات سے مکر گیا اور قسم کھا گیا کہ عامر بن قیس جھوٹا ہے اور عامر نے قسم کھائی کہ واللہ اس نے ایسا ہی کہا تھا اور دعا کی اللھم انزل علی نبیک شیئا '' فنزلت، عامر بن قیس نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ تو اس بارے میں اپنے نبی پر کچھ نازل فرما، چناچہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کے سننے والے عاصم بن عدی تھے اور بعض نے کہا ہے حذیفہ بن یمان تھے۔ دوسرا سبب : کہا گیا ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جبکہ اس نے غزوہ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت یہ بات کہی تھی کہ ہماری مثال تو محمد کے بارے میں ایسی ہے جیسی کہ کسی نے کہا ہے سمِّن کلبکَ یا کلکَ '' لئن رجعنا الی المدینة لیخرجنَّ الاعزّ منھا الاذل '' کہاوت مشہور ہے کہ کتے کو کھلا پلا کر موٹا کر اور تجھ ہی کو کاٹنے کو آئے، وطنی زبان میں کہا جاتا ہے '' ہماری بلی ہم کو ہی کو میاؤں '' مدینہ پہنچ کر عزت دار ذلت وارذلت دار کو نکالدے گا، اس کی اطلاع آپ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا تو صاف انکار کردیا اور قسم کھا گیا کہ اس نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ تیسرا سبب : ایک روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں آپ ﷺ کی اونٹنی گم ہوگئی مسلمان اس کو تلاش کر رہے تھے اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں مگر اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں ؟ وھمّوا بما لم ینالوا الخ یہ اشارہ ان سازشوں کی طرف ہے جو منافقوں نے غزوہ تبوک کے موقع پر کی تھی، ان میں ایک سازش کے واقعہ کو محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر مسلمانوں کا لشکر جب ایسے مقام پر پہنچا کہ جہاں سے راستہ پہاڑوں کے درمیان درے سے گذرتا تھا تو بعض منافقین نے طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں گذرتے ہوئے نبی ﷺ کو گڑھے میں پھینک دیں گے، آپ ﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی آپ نے تمام اہل لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں اور آپ ﷺ عمار بن یاسر اور حذیفہ بن یمان کو ساتھ لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے اثناء راہ یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ آدمی ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں یہ دیکھ کر حضرت حذیفہ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں مگر وہ دور ہی سے حذیفہ ؓ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں پہچان نہ لئے جائیں فوراً بھاگ نکلے۔ دوسری سازش : جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے کہ منافقوں کو رومیوں کے مقابلے سے نبی ﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بخیریت بچ کر واپس آنے کی امید نہیں تھی اس لئے انہوں نے آپس میں طے کرلیا تھا کہ جوں ہی ادھر کوئی سانحہ پیش آئے ادھر مدینہ میں عبد اللہ بن ابی کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا جائے، مطلب یہ ہے کہ مذکورہ سازشیں جن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھیں ان میں سے ایک مقصد بھی ان کو حاصل نہیں ہوا ؟ رکوع کے آغاز ہی میں ایک اہم ہدایت ہے کہ کفار و منافقین سے تلوار اور زبان سے جہاد کر اور سختی سے پیش آئو جس کا حکم مسلمانوں کو دیا جانا ضروری تھا اس کے بغیر اسلامی معاشرہ کو تنزل وانحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا تھا، کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستین میں بٹھائے جاتے ہوں اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لئے پھرتا ہے اس کو آزادی سے چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرہ میں ڈالنا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس گروہ کے ساتھ سختی کا معاملہ کر کے ان کو مخلصین سے بالکل الگ تھلگ کردیا جائے۔ وَمَا نقموا اِلاَّ اَنْ اغنھم اللہ ورسولہ من فضلہ نبی ﷺ کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا، اور اوس اور خزرج کے قبیلے مال یا جان کے لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہ رکھتے تھے، مگر جب آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر یہی متوسط قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا، وہی اوس و خزرج کے کاشتکار سلطنت کے اعیان اور اکابر بن گئے، اور ہر طرف سے فتوحات، غنائم اور تجارت کی برکات اس کے مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں، اللہ تعالیٰ منافقین کو اسی پر شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں، یہ کلمہ بطور طنز فرمایا گیا ہے یعنی تم احسان فراموش ہو، احسان مند ہونے کے بجائے عداوت رکھتے ہو۔ الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین، غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی ﷺ نے ہنگامی چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مالدار منافقین ہاتھ روک کر بیٹھے رہے، مگر جو مخلصین اہل ایمان تھے بڑھ چڑھ کردینے لگے تو ان لوگوں نے ان پر آوازیں کسنی شروع کردیں، اگر کوئی ذی استطاعت مسلمان (مثلا عبد الرحمن بن عوف وغیرہ) اپنی حیثیت کے مطابق بڑی رقم پیش کرتا تو اس پر ریا کاری کا الزام لگاتے اور اگر کوئی غریب مسلمان (مثلاً ابو عقیل وغیرہ) اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی رقم پیش کرتا یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کرتا یہ اس پر آوازیں کستے کہ لو یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آگئی تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کئے جائیں، تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہیں گذری تھی کہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کا انتقال ہوگیا اس کے بیٹے عبداللہ بن عبد اللہ جو مخلص مسلمان تھے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لئے آپ کا کرتہ مانگا، آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عنایت کردیا، پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھائیں آپ اس کے لئے بھی تیار ہوگئے حضرت عمر نے باصرار عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جو ایسا ایسا کرچکا ہے مگر آپ ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے، اور اس رحمت کی بنا پر جو سب کے لئے عام تھی آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں دعاء مغفرت کرنے میں بھی تامل نہ کیا آخر جب آپ ﷺ نماز پڑھانے کھڑے ہو ہی گئے تو آیت نازل ہوئی اور براہ راست حکم خداوندی سے آپ کو نماز پڑھانے سے روک دیا گیا۔ استغفر لھم اولا تستغفر لھم الخ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی ہے کہ ان منافقوں کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے اور ایسے لوگوں کی مغفرت نہ ہونے کا اللہ کا وعدہ ہے اس لئے یہ لوگ ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے لئے دعاء مغفرت کی جائے، لہٰذا اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے تو بھی خدا ان کو معاف نہ کرے گا، اس لئے کہ استغفار تو گنہگاروں کے حق میں سود مند ہوتا ہے نہ کہ اس کے لئے جو خدا اور رسول کے ساتھ کفر کر کے بغیر توبہ کے مرگیا اور نہ ان کے زندوں کو توبہ پر مجبور کیا جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے حق میں استغفار کرنے اور نہ کرنے کا اختیار دیا ہے تو آپ نے فرمایا میں ستر بار سے زیادہ ان کے لئے استغفار کروں گا شاید خدا انہیں معاف کر دے، اس پر اللہ تعالیٰ نے خفگی کے ساتھ فرمایا کہ استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے خاتمہ کا حال معلوم ہے لہٰذا ان کی مغفرت نہ ہوگی یہ خفگی کی آیت سورة منافقون میں ہے۔ ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ شعبی سے یوں روایت کی ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی قریب المرگ ہوا تو اس کا بیٹا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے معلوم کیا تیرا کیا نام ہے اس نے کہا حباب بن عبد اللہ آپ نے فرمایا حباب شیطان کا نام ہے اب تیرا نام عبداللہ بن عبداللہ ہے اور پھر آپ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اپنا کرتہ اسے پہنایا، اور آپ نے اس کے واسطے مغفرت کی دعاء فرمائی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
Top