ووضعناعنک وزرک الذی انقض ظھرک وزر کے معنی بوجھ کے ہیں اور نقض کے معنی کمر توڑ دینے یعنی کمر جھکا دینے کے ہیں، اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ وہ بوجھ جس نے آپ ﷺ کی کمر جھکا دی تھی ہم نے اس کو آپ سے ہٹا دیا وہ بوجھ کیا تھا . بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ بوجھ جائز اور مباح کام ہیں جن کو بعض اوقات آپ ﷺ نے قرین حکمت و مصلحت سمجھ کر اختیار فرمایا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مصلحت کے خلاف یا خلاف اولی تھے رسول اللہ ﷺ کو اپنی علوشان اور تقرب الٰہی میں خاص مقام حاصل ہونے کی بنا پر ایسی چیزوں پر بھی سخت رنج و ملال اور صدمہ ہوتا تھا حق تعالیٰ نے اس آیت میں بشارت سنا کر وہ بوجھ آپ سے ہٹا دیا کہ ایسی چیزوں پر آپ سے مواخذہ نہیں ہوگا۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بوجھ نبوت سے قبل چالیس سالہ دور زندگی سے متعلق ہے اس دور میں اگرچہ اللہ نے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا کسی بات کے سامنے آپ ﷺ نے سجدہ نہیں کیا نہ کبھی آپ ﷺ نے شراب پی بلکہ تمام برائیوں سے آپ ہمیشہ دامن کش رہے تاہم معروف معنی میں اللہ کی عبادت اور اطاعت کا نہ آپ ﷺ کو علم تھا نہ آپ ﷺ نے کی، اس لئے آپ ﷺ کے دل و دماغ پر اس چالیس سالہ عدم عبادت اور عدم اطاعت کا بوجھ تھا جو حقیقت میں تو نہیں تھا لیکن آپ ﷺ کے احساس اور شعور نے اسے بوجھ بنا رکھا تھا اللہ نے اسے اتار دینے کا اعلان فرمایا یہ گویا وہی مفہوم ہے جو ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “ (سورۃ الفتح) کا ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ بار نبوت تھا جسے اللہ نے ہلکا کردیا یعنی اس راہ کی مشکلات برداشت کرنے کا وہ حوصلہ، وہ ہمت، وہ اولوالعزمی اور وہ وسعت قلب عطا فرما دی جو اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھلانے کے لئے درکار تھی آپ ﷺ اس وسیع علم کے حامل ہوگئے جو آپ ﷺ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں سما نہ سکتا تھا۔