بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Yunus : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب الْحَكِيْمِ : حکمت والی
2 یہ آیتیں3 ہیں پکی کتاب کی
2:“ الٓم ” یہ حروف مقطعات میں سے ہے اس کی صحیح مراد صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ 3:“ تِلْکَ الخ ” یہ تمہید مع ترغیب ہے اس سورت میں مسئلہ توحید پر زیادہ تر دلائل عقلیہ ذکر کیے گئے ہیں۔ اس لیے ابتداء سورت میں بطو رتمہید “ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ” سے اس طرف اشارہ فرمایا۔ قرآن مجید کی جن سورتوں کی ابتداء میں کتاب کی صفت حکیم آئی ہے ان سورتوں میں زیادہ زور دلائل عقلیہ کے بیان پر دیا گیا ہے اور جن کی ابتداء کتاب کی صفت مبین وارد ہوئی ہے۔ ان سورتوں میں زیادہ تر دلائل نقلیہ مذکور ہیں۔ سورة لقمان کے شروع میں فرمایا “ الٓم تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ” سورة لقمان میں اگرچہ ایک دلیل نقلی بھی مذکور ہے مگر زیادہ زور دلائل عقلیہ پر دیا گیا ہے۔ اسی لیے کتاب کی صفت حکیم لائی گئی ہے۔ سورة زخرف کی ابتداء میں فرمایا “ حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ” یعنی کتاب کی صفت مبین فرمائی کیونکہ اس سورت میں زیادہ تر نقلی دلائل مذکور ہیں۔ سورة شعراء کے شروع میں بھی “ الکتاب ” کی صفت “ مبین ” وارد ہوئی ہے کیونکہ اس میں دلائل نقلیہ ہی مذکور ہیں صرف رکوع 1 میں دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں ترغیب کا پہلو یہ ہے کہ یہ آیتیں ایسی کتاب کی ہیں جو ہر چیز کی حقیقت ٹھیک ٹھیک بیان کرتی ہے اور جس کی تمام باتیں حکمت پر مبنی ہیں اس لیے انہیں توجہ سے سنو اور ان پر عمل کرو۔
Top