Jawahir-ul-Quran - Yunus : 28
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ١ۚ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُھُمْ : ہم اکٹھا کرینگے انہیں جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اَشْرَكُوْا : جنہوں نے شرک کیا مَكَانَكُمْ : اپنی جگہ اَنْتُمْ : تم وَشُرَكَآؤُكُمْ : اور تمہارے شریک فَزَيَّلْنَا : پھر ہم جدائی ڈال دیں گے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان وَقَالَ : اور کہیں گے شُرَكَآؤُھُمْ : ان کے شریک مَّا كُنْتُمْ : تم نہ تھے اِيَّانَا : ہماری تَعْبُدُوْنَ : تم بندگی کرتے
اور جس دن جمع کریں گے ہم ان سب کو43 پھر کہیں گے شرک کرنے والوں کو کھڑے ہو کر اپنی اپنی جگہ تم اور تمہارے شریک پھر تڑوادیں گے ہم آپس میں ان کو اور کہیں گے ان کے شریک44 تم ہماری تو بندگی نہ کرتے تھے
43: تخویف اخروی مع بیان ثمرہ دلیل۔ “ مَکَانَکُمْ ” سے پہلے فعل ناصب محذوف ہے اي الزموا۔ مذکورہ بالا دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مشرکین جن معبودانِ باطلہ کی عبادت کرتے اور جن کو عنداللہ شفیعِ غالب خیال کرتے ہیں وہ محض عاجز و درماندہ ہیں اور ان کے اختیار میں کسی کا نفع و ضرر نہیں یہاں بطور نتیجہ اور ثمرہ آخرت کا منظر پیش کیا گیا کہ دیکھ لو جن کو تم متصرف و کارساز اور سفارشی سمجھتے ہو قیامت کے دن وہ تمہارے کام تو کیا آئیں گے یا تمہاری سفارز تو کیا کریں گے بلکہ وہ تو سرے سے تمہاری عبادت اور پکار ہی کا انکار کدیں گے اور میدانِ حشر میں علی رؤوس الشہاد خدا کی قسم کھا کر اعلان کریں گے کہ وہ تمہاری عبادت اور پکار سے بالکل بیخبر تھے اور انہیں اس بات کا قطعاً کوئی علم نہیں کہ کون ان کی قبر پر آیا، کس نے ان کی قبروں پر سجدے کئے، کون ان کے نام کی نذریں منتیں دیتا رہا اور کون انہیں حاجت روائی کے لیے پکارتا رہا۔ اس سے سماع موتی کی نفی مفہوم ہے۔ کَما لا یخفی علی من له ادنی فھم و تدبر۔ 44:“ شُرَکَاء ” سے یہاں فرشتے، پیغمبر اور اولیاء اللہ (رح) مراد ہیں جن کے مجسمے بنا کر مشرکین ان کی عبادت کرتے ہیں یا جن مردانِ حق کی قبروں پہ جا کر ان کو پکارتے ہیں قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب طلبی ہوگی کہ کیا یہ لوگ دنیا میں تمہیں پکارتے تھے اور کیا تم نے انہیں اس بات کی تعلیم دی تھی یا ان مشرکانہ افعال کا ان کو حکم دیا تھا تو وہ صاف انکار کریں گے “ بارے خدایا ! ہم نے ان کو شرک کی تعلیم ہرگز نہیں دی، نہ اس پر راضی تھے بلکہ ہمیں تو ان مشرکانہ افعال کا علم بھی نہیں۔ قیل المراد بالشرکاء الملئکة والمسیح فانھم ما امروا بھا ولا رضوا بھا (مظہری ج 5 ص 24) والمراد بالشرکاء قیل الملئکة و عزیر والمسیح وغیرھم ممن عبدوہ من اولی العلم الخ (ابو السعود ج 4 ص 822) ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں اور کوئی جگہوں میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ سورة الفرقان رکوع 2 میں ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان نیک لوگوں سے فرمائے گا جن کی دنیا میں عبادت کی گئی۔ “ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ ھٰؤلَاءِ اَمْ ھُمْ ضَلُّوْا السَّبِیْلَ ” کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا تھا اور انہیں شرک کی تعلیم دی تھی یا وہ خود ہی گمراہ ہوئے تو نیک لوگ جواب دیں گے۔ “ سُبْحٰنَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَا اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ اَوْلِیَاءَ ” اے اللہ تو ہر شرک سے پاک ہے ہم نے دنیا میں اپنی ذات کیلئے تیرے سوا کسی کو کارساز نہیں بنایا تو اوروں کو ہم کیونکر شرک کی راہ پر ڈال سکتے تھے اسی طرح ایک جگہ فرشتوں کے بارے میں میں ارشاد ہے “ وَ یَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٓئِکَةِ اَھٰؤُلاءِ اِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ۔ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِھِمْ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اَکْثَرُھُمْ بِھِمْ مُّؤمِنُوْنَ ” (سبا، رکوع 5) ۔
Top