Jawahir-ul-Quran - Yunus : 31
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ١ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں مَنْ : کون يَّرْزُقُكُمْ : رزق دیتا ہے تمہیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین اَمَّنْ : یا کون يَّمْلِكُ : مالک ہے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَمَنْ : اور کون يُّخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَيُخْرِجُ : اور نکالتا ہے الْمَيِّتَ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ وَمَنْ : اور کون يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ : تدبیر کرتا ہے کام فَسَيَقُوْلُوْنَ : سو وہ بول اٹھیں گے اللّٰهُ : اللہ فَقُلْ : آپ کہہ دیں اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : کیا پھر تم نہیں ڈرتے
تو پوچھ کون روزی دیتا ہے تم کو46 آسمان سے اور زمین سے   یا کون مالک ہے کان47 اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون تدبیر کرتا ہے کاموں کی سو بول اٹھیں گے کہ اللہ تو تو کہہ پھر ڈرتے نہیں ہو
46: یہ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے لیکن علی سبیل الاعتراف من الخصم یعنی ایسے عقلی امور کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے جو فریق مخالف یعنی مشکرین کے نزدیک مسلم ہیں اور فریق مخالف ان کو مانتا ہے۔ یہ دلیل ایسے چھ امور پر مشتمل ہے جن کو مشرکین تسلیم کرتے تھے یہ دلیل سابقہ دلیلوں سے بطور ترقی ہے یعنی یہ ایسے امور ہیں کہ مخالف بھی ان کا اقرار کرتے ہیں “ کما قیل اصح الشھادات ما یشھد به الاعداء ” جب کافر ان باتوں کو مانے اور اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات کا اقرار کرتے ہیں تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کارسازی کو بھی مان لینا چاہئے کہ وہی مالک و مختار اور متصرف و کارساز ہے۔ اول زمین و آسمان سے تمام بنی آدم بلکہ تمام جاندار مخلوق کی روزی کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ دوم سننے کی قوت بھی اللہ ہی نے سب کو عطا کی ہے۔ سوم اسی طرح دیکھنے کی طاقت بھی اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے اور وہ ان دونوں قوتوں کو سلب کرلینے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ چہارم : بےجان انڈے اور نطفہ سے جاندار بچہ پیدا کرنا اور۔ پنجم : جاندار یعنی انسان اور پرندے سے بےجان نطفہ اور انڈا پیدا کرنا اسی کا کام ہے۔ یا میت سے مراد کافر ہے کیونکہ وہ ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے مردہ ہے اور حَیٌّ سے مراد مؤمن جو دولت ایمان کی برکت سے زندہ جاوید ہے یا حی سے مراد کھیتی اور میت سے مراد زمین ہے۔ “ اي النبات من الارض والانسان من النطفة والسنبلة من الحبة والطیر من البیضة والمؤمن من الکافر ” (قرطبی ج 8 ص 335) ۔ حق بات یہ ہے کہ یہ جملہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے ان تمام اشیاء کو شامل ہے۔ ششم : زمین و آسمان کا سارا کاروبار اور نظام عالم اسی کی تدبیر سے چل رہا ہے تدبیر عالم میں وہ یکتا ویگانہ ہے اور اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ “ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ” یعنی جب تم یہ ساری باتیں جانتے اور مانتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہو تو پھر شرک سے کیوں نہیں بچتے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز اور متصرف علی الاطلاق کیوں نہیں مانتے ہو۔ “ افلا تتقون الشرک فی العبودیة اذا اعترفتم بالربوبیة ” (مدارک ج 2 ص 124) ۔ مشرکین مکہ کا عقیدہ تو یہ تھا کہ مذکورہ بالا امور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہیں اور ان کے مزعومہ معبودوں میں ان کاموں کی طاقت نہیں یعنی انھم یعترفون ان فاعل ھذہ الاشیاء ھو اللہ تعالیٰ (خازن ج 3 ص 188) یعنی لا یقدرون علی اسناد ھذه الامور الی ما یدعونه اٰلھة لظھور بطلانه (مظہری ج 5 ص 25) ۔ مگر آج کل کے مشرک ان سے بھی بازی لے گئے۔ مشرکین مکہ نے اعتراف کیا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی مدبر عالم نہیں مگر چودہویں صدی کے ایک مدعی اسلام نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کو برملا مدبر عالم کا خطاب دیا ہے۔ ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی ہے مختار بھی ہے کار عالم کا مدبر بھی ہے عبدالقادر (حدائق بخشش حصہ اول) 47: بھلا بتلاؤ تو سہی کہ رازق کون ہے اور مالک سمع و بصر کون ہے وہ جواب دیں گے کہ اللہ تو پھر اسی کو پکارو اوروں کو کیوں پکارتے ہو۔ “ اَمَّنْ ” میں ام منقطعہ ہے (رضی) اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلی بات غلط ہے اور اس سے اعراض کیا گیا ہے بلکہ ایک امر سے دوسرے امر کی طرف انتقال مراد ہے یعنی بتاؤ تمہیں روزی کون دیتا ہے اچھا اسے رہنے دو ایک اور بات بتاؤ کہ مالک سمع وبصر کون ہے۔
Top