Jawahir-ul-Quran - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر ہم دکھائیں گے63 تجھ کو کوئی چیز ان وعدوں میں سے جو کیے ہم نے ان سے یا وفات دیں تجھ کو، سو ہماری ہی طرف ہے، ان کو لوٹنا، پھر اللہ شاہد ہے ان کاموں پر جو کرتے ہیں
63: تخویف دنیوی ہے۔ منکرین اور معاندین کو ذلیل ورسوا کرنے کا ہم نے آپ سے جو وعدہ کر رکھا ہے اس کی بعض صورتیں اگر ہم دنیا ہی میں ظاہر کردیں اور آپ کو دکھا دیں تو ہم اس پر بھی قادر ہیں اور اگر دنیا میں ان کی سزا اور رسوائی کی تمام صورتوں کے ظہور سے قبل ہی ہم آپ کو وفات دیدیں تو ان کی مزید ذلت ورسوائی آپ میدان حشر میں مشاہدہ فرمالیں گے۔ “ اي واما نرینک بعض الذي نعدھم فی الدنیا فذلک او نتوفینک قبل ان نریکه فنحن نریکه فی الاخرة ” (مدارک ج 2 ص 127) ۔ “ ثُمَّ اللّٰه الخ ” میں ثُمَّ تراخی کیلئے نہیں بلکہ محض تعقیب ذکری کیلئے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں حاضر و ناظر ہے قیامت کی کیا خصوصیت ہے یا “ ثُمَّ ” بمعنی واؤ ہے یا شہادت سے مراد اس کا لازم ہے یعنی جزاء و سزا دینا اس صورت میں “ ثم ” تعقیب زمانی کیلئے ہوگا “ ھی علی الاول للتراخی الرتبی و علی الثانی علی الظاھر ” (روح ج 11 ص 129) ۔
Top