Jawahir-ul-Quran - Yunus : 51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
اَثُمَّ : کیا پھر اِذَا : جب مَا وَقَعَ : واقع ہوگا اٰمَنْتُمْ : تم ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر آٰلْئٰنَ : اب وَقَدْ كُنْتُمْ : اور البتہ تم تھے بِهٖ : اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی مچاتے تھے
کیا پھر جب69 عذاب واقع ہوچکے گا تب اس پر یقین کرو گے اب قائل ہوئے70 اور تم اسی کا تقاضا کرتے تھے
69: یہاں تقدیم وتاخیر ہے اصل میں یوں تھا۔ “ ءَ اِذَا مَا وَقَعَ ثُمَّ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ” اور “ ثُمَّ ” استبعاد کے لیے ہے یعنی تم عذاب کو اس طرح جلدی مانگتے ہو گویا کہ جب عذاب آجائے گا تو پھر تم ایمان لے آؤ گے یہ بات تو پہلے سے بھی زیادہ تعجب انگیز اور بعید از عقل ہے۔ “ ءَاِذَا مَا وَقَعَ العذاب و حل بکم حقیقة اٰمنتم به وجیء بثم دلالة علی زیادة الاستبعاد ” (روح ج 11 ص 124) ۔ 70: اس سے پہلے “ یقال ” مقدر ہے اور اس کے بعد “ اٰمنتم ” یعنی جب عذاب آگیا اور منکرین عذاب دیکھ کر ایمان لے آئے تو ان سے کہا جائے گا کہ اب عذاب دیکھ کر ایمان لاتے ہو اور ایسے ایمان سے نفع کی امید رکھتے ہو حالانکہ تم اس عذاب کو بطور استہزاء و تمسخر جلدی مانگتے تھے یہ توبیخ و تہدید کے طور پر کہا جائے گا۔ “ اٰلْئٰنَ تؤمنون ترجون الانتفاع بالایمان مع انکم کنتم قبل ذلک به تستعجلون علی سبیل السخریة والاستھزاء ” (کبیر ج 17 ص 109) ۔
Top