Jawahir-ul-Quran - Yunus : 58
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں بِفَضْلِ : فضل سے اللّٰهِ : اللہ وَبِرَحْمَتِهٖ : اور اس کی رحمت سے فَبِذٰلِكَ : سو اس پر فَلْيَفْرَحُوْا : وہ خوشی منائیں ھُوَ : وہ۔ یہ خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
کہہ اللہ کے فضل سے اور اس کی مہربانی سے75 سو اسی پر ان کو خوش ہونا چاہیے یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو جمع کرتے ہیں
75:“ فضل ” سے مراد قرآن اور رحمت سے توفیق ایمان واسلام مراد ہے یا دونوں سے مراد قرآن ہی ہے اس آیت میں نہایت تاکید اور اہتمام سے قرآن کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کا فضل و رحمت ہے خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے اس آیت کی فصاحت و بلاغت کا کمال یہ ہے کہ لفظی تکرار کے بغیر اس میں معنوی تکرار اور تاکید موجود ہے۔ چناچہ یہاں تین بار اس کی تاکید ہے۔ (1) “ بِفَضْلِ اللّٰه ” کا متعلق محذوف ہے اصل میں تھا “ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِه فَلْیَفْرَحُوْا ”۔ (2) “ فَبِذٰلِکَ ” فاء اس پر دلالت کر رہی ہے کہ بِذٰلکَ کا متعلق محذوف ہے جو بقرینہ ما بعد “ لِیَفْرَحُوْا ” ہے۔ (3) “ فَلْیَفْرَحُوْا ” جملہ ہے جس کا متعلق بِذٰلِکَ مقدر ہے اس طرح “ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ” دو مستقل جملے ہوں گے اور اصل کلام یوں ہوگا “ فَبِذٰلِکَ لِیَفْرَحُوْا ”۔ “ فَبِذٰلِکَ لِیَفْرَحُوْا ” پہلے جملہ سے “ فَلْیَفْرَحُوْا ” اور دوسرے جملہ سے “ بِذٰلِکَ ” محذوف ہوگا۔ “ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ” میں ظرف کی فعل پر تقدیم مفید حصر ہے اسی ہی کے ساتھ انہیں خوش ہونا چاہئے نہ کسی دوسری کتاب یا دنیوی مال و منال سے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ دیگر مفسرین نے صرف دو جملے بنائے ہیں۔ ایک “ بِفَضلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِه فَلْیَفْرَحُوْا ” دوم “ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ”۔ امام رازی فرماتے ہیں “ و تقدیرہ بفضل اللہ و برحمته فلیفرحوا ثم یقول مرة اخري (فبذلک فلیفرحوا) والتکرار للتاکید ” (کبیر ج 17 ص 117، کذا فی الروح والمدارک) ۔
Top