Jawahir-ul-Quran - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
فرمایا قبول ہوچکی دعا تمہاری104 سو تم دونوں ثابت رہو اور مت چلو راہ ان کی جو ناواقف ہیں
104: اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبول دعا کی خوشخبری سنائی گئی کہ تمہاری دعا قبول ہوچکی ہے لیکن ابھی چند دن صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا “ وَلَا تَتَّبِعٰنِ الخ ” اللہ پر بھروسہ رکھو وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے امور و احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے بیخبر ہوتے ہیں وہ اللہ کے وعدوں کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں اور صبر و استقامت کے بجائے عجلت اور بےصبری کا اظہار کرتے ہیں اے موسیٰ و ہارون ایسے بیخبر لوگوں کی سی کوئی حرکت تم سے ہرگز سرزد نہ ہونے پائے۔ “ وَجَاوَزنَا بِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الْبَحْرَ ” جب اللہ کے وعدے کے مطابق بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کا وقت آگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات شہر سے روانہ ہوگئے جب فرعون کو پتہ چلا تو وہ بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ بنی اسرائیل جب دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا میں اپنا عصا ڈالا تو اس میں بارہ راستے بن گئے اسرائیلی بخیریت پار ہوگئے ان کے پیچھے فرعون بھی مع لاؤ لشکر دریا میں گھس گیا اللہ نے پانی کو روانی کا حکم دیدیا اور فرعون مع قوم غرق ہو کر ہلاک ہوگیا۔ “ قَالَ اٰمَنْتُ الخ ” جب فرعون ڈوب رہا تھا تو اس نے اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ میں اس اللہ پر ایمان لے آیا جس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لا چکے ہیں۔ فرعون کا ایمان عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد تھا اس لیے قبول نہ ہوا۔ “ اٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ الخ ” جب ایمان لانے اور اللہ کی عبادت وطاعت کا وقت تھا اس وقت تو نے انکار کیا اور اللہ کی نافرمانیاں کیں اور شرک پھیلا کر دنیا کو شر و فساد سے بھر دیا اس لیے اب ایمان لانے سے کیا فائدہ۔ “ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ ” یہ “ نجوة ” (اونچی جگہ) سے ماخوذ ہے یعنی آج ہم تیری لاش کو اونچی جگہ ڈالیں گے تاکہ تو باقی ماندہ لوگوں کے لیے عبرت و نصیحت کا نشان بن جائے “ نلقیک بنجوة من الارض ” (مدارک ج 2 ص 134) ۔ یہ مطلب نہیں کہ تیری لاش کو قیامت تک محفوظ رکھوں گا۔
Top