Jawahir-ul-Quran - Yunus : 93
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا : اور البتہ ہم نے ٹھکانہ دیا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل مُبَوَّاَ : ٹھکانہ صِدْقٍ : اچھا وَّرَزَقْنٰھُمْ : اور ہم نے رزق دیا انہیں مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں فَمَا اخْتَلَفُوْا : سو انہوں نے اختلاف نہ کیا حَتّٰى : یہاں تک کہ جَآءَھُمُ : آگیا ان کے پاس الْعِلْمُ : علم اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب يَقْضِيْ : فیصلہ کرے گا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے
اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو105 پسندیدہ جگہ اور کھانے کو دیں ستھری چیزیں سو ان میں پھوٹ نہیں پڑی یہاں تک کہ پہنچی ان کو خبر بیشک تیرا رب ان میں فیصلہ کرے گا قیامت کے دن جس بات میں کہ ان میں پھوٹ پڑی
105: بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر و استقامت کی بدولت بہت بڑے بڑے انعامات فرمائے ان کو فرعون کی غلامی سے نجات دی اور ملک شام اور مصر ان کے قبضہ میں دیدئیے اور ہر قسم کی فراخی عیش سے ان کو متمتع کیا مگر انہوں نے انعاماتِ الٰہی کی قدر نہ کی، ان کا شکر ادا نہ کیا اور جس دین توحید کی خاطر انہیں یہ سب کچھ ملا تھا اس کی حفاظت نہ کی بلکہ اسے بدل ڈالا۔ “ فَمَا اخْتَلَفُوْا الخ ” اس کے ساتھ “ بَغْیًا ” کی قید ملحوظ ہوگی بقرینہ “ وَمَاتَفَرَّقُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ ” (شوری رکوع 2) ۔ یعنی انہوں نے دلائل وبراہین سے مسئلہ توحید واضح ہوجانے کے بعد محض ضد وعناد اور بغاوت وکجروی سے اس میں اختلاف کیا۔ مزید تفصیل پہلے گذر چکی ہے ملاحظہ تفسیر سورة بقرہ ص 102 حاشیہ نمبر 407.“ فَاِنْ کُنْتَ الخ ” یہ زجر ہے۔ خطاب بظاہر آنحضرت ﷺ سے لیکن مراد غیر رسول ہے کیونکہ آپ کو تو شک تھا ہی نہیں۔ امام ثعلب اور امام مبرد فرماتے ہیں۔ “ فَاِنْ کُنْتُ فِیْ شَکٍّ ” کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد ﷺ آپ ہر کافر سے فرما دیں اگر تجھے کوئی شک ہے الخ۔ “ الخطاب للنبی ﷺ والمراد غیرہ اي لست فی شک ولکن غیرک شک قال ابو عمر محمد بن عبد الواحد الزاھد سمعت الامامین ثعلباً والمبرد یقولان معنی (فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ ) اي قل یا محمد للکافر فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ ” (قرطبی ج 8 ص 382) ۔ قرآن مجید میں مسئلہ توحید و ایسے دلائل و بینات سے بیان کیا گیا ہے کہ اب اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی لیکن جو شخص قرآن کے ان دلائل وبراہین کے بعد اور اہل کتاب کے علماء ربانیین کے ایمان لے آنے کے بعد بھی اس میں شک کرے اور اسے نہ مانے تو اس کا انکار انصاف اور عقل پر مبنی نہیں ہوگا بلکہ محض ضد وعناد کی وجہ سے ہوگا۔
Top