Dure-Mansoor - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ الْكَعْبَةَ : کعبہ الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام ولا گھر قِيٰمًا : قیام کا باعث لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ : اور حرمت والے مہینے وَالْهَدْيَ : اور قربانی وَالْقَلَآئِدَ : اور پٹے پڑے ہوئے جانور ذٰلِكَ : یہ لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : اسے معلوم ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے کعبے کو عزت اور بزرگی کا گھر وہ لوگوں کے قیام کا ذریعہ ہے اور اللہ نے حرمت کے مہینوں اور نیاز کے جانوروں اور پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کو بھی ایسا ہی بنایا ہے یہ (بات ایسی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو جاننے والا ہے
رابط آیات پہلی آیات میں احرام کی حالت میں خشکی کے شکار کی ممانعت کا ذکر تھا اور اس کے ساتھ تاوان کا بیان تھا جو ایسی حالت میں شکاری کو ادا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے۔ شکار کی حرمت بیت اللہ شریف کی تکریم اور وہاں کے مقصد کے لئے احرام پہننے کی وجہ سے ہے۔ شکار کے یہ احکام بیان کرنے کے بعد اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کی فضیلت اور اس کی مرکزیت کا ذکر کیا ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کی حیثیت اور اس میں جہان بھر کے لئے جو مصلحت ہے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ اللہ بیت ذریعہ قیام ہے ارشاد ہوتا ہے جعل اللہ لکعبۃ البیت الحرم قیمۃ للناس۔ اللہ تعالیٰ نے عزت اور بزرگی والے گھر کعبہ شریف کو قیام کا ذریعہ بنایا ہے عربی زبان میں کعبہ ابھری ہوئی جگہ اور چوکور گھر کو کہتے ہیں بیت اللہ شریف اگرچہ حجم کے لحاظ سے بہت بڑا نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و شرف کا بہت بڑا مقام عطا کیا ہے اور اسے ہی کعبہ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کعبے کے تذکرہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تین مزید چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ یعنی والشھر الحرم حرمت کے مہینے والھدی کعبے کی طرف جانے والے اللہ کی نیاز کے جانور والسقائد اور پٹے ڈالے گئے جانور جو قربانی کی نشانی کے طور پر ہوتے ہیں کعبہ شریف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان تین چیزوں کو بھی لوگوں کے قیام کا ذریعہ فرمایا ہے۔ اور یہ ذریعہ قیام دینی اور دنیاوی ہر دو لحاظ سے فرمایا گیا کیونکہ اس کا اطلاق دونوں طریق پر ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر نزول قرآن تک کے ہزاروں سالہ دور میں عرب کے خطہ میں کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ یہاں پر قبائلی نظام رائج تھا ، مصر ، شام ، روم ، ایران اور ہندوستان وغیرہ میں تو باقاعدہ حکومتیں تھیں مگر جزیرہ نمائے عرب میں کوئی مرکزی تنظیم نہیں تھی۔ اس افراتفری اور نفانفسی کے اعلم میں بھی اللہ تعالیٰ نے حرم پاک کو لوگوں کے قیام اور بقا کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ سال بھر میں چار حرمت والے مہینوں کے دوران لڑائی بند رہتی تھی۔ قافلے بلا روک ٹوک سفر کرسکتے تھے ، خوب تجارت ہوتی تھی اور لوگوں کو امن حاصل ہوتا تھا اور یہ سب کچھ بیت اللہ شریف کے احترام کی وجہ سے ہوتا تھا۔ یہاں پر لوگوں کے قیام سے مراد یہ ہے کہ اس محترم گھر کی وج ہ سے لوگ قائم ہو سکتے تھے یعنی اپنی زندگی بسر کرسکتے تھے۔ اگر امن وامان کے یہ چار مہینے بھی لوگوں کو میسر نہ ہوتے تو جنگ وجدال اور لوٹ مار کی وجہ ہر قسم کا کاروبار ، کھیتی باڑی اور تجارت ٹھپ ہو کر رہ جاتے اور لوگوں کو زندگی گزارنا محال ہوجاتا۔ قیام کا یہ لفظ انہی معانی میں سورة نساء میں بھی گزر چکا ہے۔ ” ولا توتوا السفھآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیماً “ اپنے مال بیوقوفوں کے سپرد نہ کرو ، اللہ نے تمہارے لئے یہ گزرن کا ذریعہ بنائے ہیں۔ بیت اللہ شریف بھی اسی لحاظ سے ذریعہ معاش ہے اور اس کی بدولت لوگ گزر اوقات کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو حکم ہے ” وللہ علی الناس حج …استطعاع الیہ سبیلاً “ کہ وہ صاحب استطاعت ہیں تو زندگی بھر میں کم از کم ایک دفعہ بیت اللہ شریف کا حج کریں جب لوگ وہاں جاتے ہیں تو کعبہ شریف کا طواف کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں۔ تلاوت کرتے ہیں ، صفاومر وہ کی سعی کرتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں اور یہی چیزیں ہیں جن کی بدولت عازمین حج وعمرہ کو جسمانی و روحانی ، علمی اور اخلاقی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورة حج میں بھی فرمایا ہے کہ حج کے موقع پر ” لیشھد وا منافع لھم “ لوگوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے قائم یعنی گزران کے ذریعہ سے تعبیر کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ جب تک وہاں عبادت ہوتی رہے گی طواف اور قربانی ہوتی رہے گی۔ نمازیں ادا ہوتی رہیں گی ، دنیا بھی قائم رہے گی اور جب یہ چیزیں ختم ہوجائیں گی تو دنیا بھی قائم نہیں رہے گی سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ہے ” ان اول بیت وضع للناس للذی بیکۃ مبرکاً “ اللہ تعالیٰ کا اس سر زمین پر سب سے پہلا گھر یہی ہے جو لوگوں کی عبادت کے لئے مکہ معظمہ میں تعمیر کیا گیا اور یہ بڑی برکتوں وا لا گھر ہے۔ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حرم شریف میں ہر روز اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے اور باقی ساٹھ دیگر عبادت گزاروں کے لئے مخصوص ہیں۔ اللہ کی یہ خصوصی رحمتیں ہیں دیگر مہربانیوں کے علاوہ ہیں انہی کثرت فضائل کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ کھنچ کھنچ کر آتے ہیں اور گزران کا ذریعہ بنتے ہیں۔ شعائر اللہ کی تعظیم بیت اللہ شریف کے علاوہ جن باقی تین چیزوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی حرمت کے مہینے ، بدی کے جانور اور پٹے والے جانور سب شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ بیت اللہ شریف خود بھی شعائر اللہ میں داخل ہے اس کے علاوہ حج ، طواف ، زیارات ، صفا ومروہ ، منیٰ ، عرفات ، مزدلفہ وغیرہم شعائر اللہ میں ہی شمار ہوتے ہیں اور شعائر اللہ کی تعظیم ہمارے دین کا ایک اہم اصول ہے۔ سورة حج میں موجود ہے ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من تقویٰ المقلوب ” یعنی اللہ کے شعائر کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی نشانی ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اعظم شعائر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے چار بڑے شعائر ، قرآن کریم ، حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کی ذات مبارکہ ، بیت اللہ شریف اور نماز ہیں۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ دین کے باقی اہم اصولوں میں اللہ کی وحدانیت کو ماننا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ایک اہم اصول ہے۔ ” فاذ کرنی اذکرک “ یعنی تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد کروں گا۔ اس کے علاوہ اللہ کا شکر ادا کرنا بھی جزو دین ہے جیسا کہ ارشاد ہے ” واشکروالی ولا تکفرون “ یعنی میرا شکریہ ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔ اور پھر صبر بھی انہی اہم اصولوں میں سے ہے۔ اللہ مالک کا ارشاد ہے فاصبر کما صبر اولوا العزم من الوسیع (احقاف ) صاحب عزم رسولوں کی طرح صبر کرو۔ نیز فرمایا ” ان اللہ مع الف برین “ (بضرہ ، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے غرضیکہ تعظیم شعائر اللہ دین اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے۔ جب تک شعائر اللہ کی تعظیم دنیا میں باقی ہے ، دنیا قائم ہے۔ جب یہ ختم ہو جائیگی تو دنیا بھی فنا ہوجائے گی حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب زمین پہ اللہ اللہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ” تو پھر قیامت برپا ہوجائے گا۔ “ بیت اللہ بطور مرکز بیت اللہ شریف ظاہری طور پر بھی پوری کائنات کا مرکز ہے ، اور روحانی طور پر بھی یہ اہل اسلام کا مرکز ہے۔ جب تک مسلمان اس کی مرکزیت کو قائم رکھیں گے ، خود انہیں دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی اور جب یہی مرکزیت ٹوٹ گئی تو مسلمان بھی دنیا میں ذلیل ہو کر رہ جائیں گے مقام افسوس ہے کہ اہل اسلام کی یہ مرکزیت ایک عرصہ سے ختم ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں مسلمان ہر مقام پر ذلت کی علامت بن رہے ہیں۔ بیت اللہ شریف کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح ، تکمیل اخلاق ، روحانیت اور علوم ہدایت کا مرکز بنایا ہے۔ اسی زمین میں پیغمبر آخر الزمان کی نشاۃ ہوئی ، قرآن کریم یہیں نازل ہوا ، اسی بیت اللہ کو ہمیشہ کے لئے نمازوں کا قبلہ مقرر کیا گیا ، اسے حج وعمرہ کا مرکز بنایا گیا لہٰذا یہ لوگوں کے قیام کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہے۔ اس کی شرف و عزت قرب قیامت تک قائم رہے گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ پھر حبشہ کا موٹی پنڈلیوں والا ایک ظالم انسان اس پر حملہ آور ہو کر اسے گرائے گا اور اس کے بعد جلد ہی قیامت برپا ہو جائیگی اسی لئے فرماتے ہیں کہ جب تک کعبہ شریف اور دیگر شعائر اللہ کی عزت و حرمت اور مرکزیت قائم ہے دنیا قائم ہے اور جب یہ نہ رہے گی تو ندیا بھی باقی نہیں رہے گی۔ فرمایا یہ ایسی بات ہے ذلک لتعلموا تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں اپنے علم و حکمت کے ساتھ مقرر کی ہیں ان اللہ یعلم مافی السموت وما فی الارض اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ وان اللہ بکل شیء علیم اور بیشک اللہ تعالیٰ ہر شے کو جاننے والا ہے وہ ان کی مصلحتوں نے بھی واقف ہے ، اسی لئے اس نے بیت اللہ کو مرکزیت عطا فرمائی ہے۔ جب تک مسلمان اس مرکز سے وابستہ رہیں گے۔ ان کو عزت حاصل رہیگی۔ جب اس مرکز کا تصور دلوں سے خارج ہوجائے گا ، تو خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی بندگی کا حقیقی تصور بھی جاتا رہے گا اور مسلمان ذلیل ہو کر رہ جائیں گے۔ غرضیکہ بیت اللہ شریف تمام جہان کے لوگوں کے لئے ذریعہ قیام ہے۔ اسے دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی روح ہے اور جب تک یہ روح قائم ہے ڈھانچہ بھی قائم ہے۔ اتمام حجت فرمایا اعلموا ان اللہ شدید العقاب یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ (1) بخاری ص 219 ج 1 (فیائض) سخت گرفت کرنے والا ہے۔ اگر اس کے اصولوں کو توڑو گے تو اس کی پکڑ بھی آئے گی۔ جس طرح احرام کے قانون توڑنے پر تاوان عائد کیا گیا۔ اسی طرح کعبہ کی مرکزیت کو نظر انداز کرنے سے اللہ تعالیٰ کی گرفت آسکتی ہے۔ ہاں ! اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو گے ، اس کے احکام کی پیروی کرو گے۔ اس کی وحدانیت پر ایمان لائو گے تو پھر وان اللہ غفور رحیم۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی غلطیوں کو معاف کرنے والا اور نہایت مہربان بھی ہے۔ گویا وہ دونوں صفات کا مالک ہے ، وہ شدید العقاب بھی ہے اور غفور و رحیم بھی ہے۔ اور فرمایا یہ بھی یاد رکھو۔ ما علی الرسول الا البلغ اللہ کے رسول کے ذمے تو پہنچا دینا ہے اور تمہارا کام عمل کرنا ہے اللہ کے رسول نے دین ، ہدایت ، قرآن ، وحی ، پاکیزہ اصول اور شرائع سب کچھ تمہارے پاس پہنچا دیا ہے ، اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ ان پر عمل پیرا ہو جائو ، اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ خود تم سے باز پرس کرے گا کیونکہ واللہ یعلم ما تبدون وما تکتمون وہ تمہاری ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز اور عمل کو خوب جانتا ہے۔ ظاہر و باطن کا پورا علم اس کے پاس ہے۔ اس نے انبیاء اور کتب کے ذریعے اپنے احکام تم تک پہنچا کر حجت تمام کردی ہے۔ اب نتائج کے تم خود ذمہ دار ہو۔ کثرت تعداد معیار حق نہیں قلت و کثرت کا مسئلہ اکثر انسانی اذہان میں کھٹکتا رہتا ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اس کی حقیقت کو بھی واضح کردیا ہے۔ ارشاد ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے لایستوی الخبیث والطیب جنیث اور طیب چیز برابر نہیں ہو سکتی۔ یعنی یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاک اور ناپاک چیز یکساں نہیں ولو ا عجبک کثرۃ الخبیث ۔ اگرچہ خبث کی کثرت تمہیں تعجب میں کیوں نہ ڈالے۔ اگر دنیا میں کفر ، شرک ، معاصی اور گندے نظام کا غلبہ ہو ، دنیا میں ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ کا دور دورہ ہو تو یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اچھی اور خدا کی پسندیدہ چیزیں ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کلمہ حق ہی اچھا ہے اگرچہ دنیا میں اس کی تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو مثال کے طور پر اگر دنیا کا بیشتر حصہ حرام سے بھرا ہوا ہے اور حلال کا حصہ بالکل کم ہے تو حرام کی کثرت اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کے نزدیک حلال ہی پسندیدہ ہے خواہ وہ کتنی قلت میں ہو۔ اگر ایک مومن آدمی اپنی محنت کے ذریعے پانچ روپے رزق حلال کماتا ہے تو وہ اس سو روپے سے زیادہ بہتر ہیں جو رشوت کے ذریعے حاصل کئے گئے ہوں۔ اسی طرح جائز کمائی کے دس روپے سود کے ایک لاکھ روپے سے اچھے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ دس روپے ہی محبوب ہیں۔ اس طرح اگر دنیا میں اچھے اخلاق والے قلیل تعداد میں ہیں تو اکثریت کے مقابلے میں وہی کامیاب ہیں عقلمندوں کی قلیل تعداد بیوقوفوں کے جم غفیر سے بدرجہا بہتر ہے۔ یورپ کی جمہوریت کا بھی یہی حال ہے۔ اس میں انسانوں کی قابلیت کی بجائے ان کی تعداد کو معیار بنایا گیا ہے۔ جو زیادہ ووٹ حاصل کرے وہی کامیاب ہے اگرچہ خود ووٹر معیار سے گرے ہوئے لوگ کیوں نہ ہوں۔ علامہ اقبال مرحوم نے یہی تو کہا تھا۔ از مغز دو صد خو فکر انسانے نمی آید یعنی دو سو گدھے ایک انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگرچہ وہ غائب اکثریت میں ہیں۔ ہاں اگر طیب اور پاک چیز کی کثرت ہے تو وہ نور علی نور ہے ۔ اور اگر گندگی چیز یا گندہ نظام اکثریت میں ہے تو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے ، بری چیز بہرحال بری ہے ، محض اکثریت کی بناء پر اسے اچھائی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاسکتا۔ اس وقت پوری دنیا کی پانچ ارب آبادی میں سے سوا چار ارب کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا ہے۔ ہر طرف مبریلزم ، ملوکیت ، اور ڈکٹیٹر شپ کا دور دورہ ہے مگر کلمہ جامع نہیں ہے۔ ترکوں میں خلافت کے زمانے تک مسلمانوں میں کسی قدر اجتماعیت موجود تھی۔ مگر انگریز نے بالآخر اسے ختم کر کے چھوڑا۔ اب مسلمانوں کا اجتماعی نظام بالکل ناپید ہے ، حق مغلوب ہوچکا ہے اور باطل غالب ہے مگر یہ اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کے ہاں کلمہ حق ، ایمان ، اسلام اور پاکیزہ اخلاق ہی صداقت کا معیار ہیں ، اسی لئے فرمایا کہ ناپاک چیز بہرحال ناپسندیدہ ہے اگرچہ وہ تمہیں کتنا بھی تعجب میں ڈال دے انجام انہی لوگوں کا اچھا ہوگا جو حق پر ہیں خواہ وہ کس قدر قلیل تعداد میں ہوں۔ معیار شرافت صحیحین کی حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے قریب سے ایک اعلیٰ حیثیت کا آدمی گزرا۔ آپ نے صحابہ سے دریافت کیا ، یہ کیسا آدمی ہے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ اشراف میں سے ہے۔ جہاں جائیگا ، ہر شخص اس کے لئے گھر کا دروازہ کھولے گا ، اگر کہیں نکاخ کا پیغام دے گا تو فوراً قبول کیا جائے گا۔ لوگ اس کے رشتہ پر فخر کریں گے اگر یہ شخص کسی کی سفارش کرے گا تو قبول کی جائیگی۔ اسکے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے شخص کا گزر ہوا۔ حضور ﷺ نے اس کے متعلق بھی دریافت فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ فقراء میں سے ہے ، اس کو کوئی پوچھتا نہیں اور نہ کوئی اس کا احترام کرتا ہے۔ اگر کہیں جاتا ہے تو لوگ گھر کا دروازہ نہیں کھولتے۔ اگر یہ کسی کو نکاح کا پیغام دے تو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ کسی کی سفارش کرے تو کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، یاد رکھو ! پہلے آدمی جیسے لوگوں سے اگر پوری زمین بھری ہوئی ہو تو اللہ کے نزدیک یہ دوسرا آدمی ان سب سے بہتر ہے ، کیونکہ اس کے ہاں عزت و شرف کا معیار دنیاوی جاہ و جلال اور کثرت نہیں بلکہ ایمان اور تقویٰ ہے۔ بہر حال فرمایا کہ آپ کہہ دیجیے کہ خبیث اور طیب برابر نہیں اگرچہ کثرت کتنی ہی خوش کن کیوں نہ ہو۔ ایک چلو بھر پاک پانی مٹکا بھر پیشاب سے بہتر ہے۔ حلال و حرام کا بھی یہی اصول ہے۔ حلال اور طیب کی قلیل مقدار حرام کی کثیر مقدار سے بہر صورت بہتر ہے۔ اللہ کے ہاں پسندیدگی کا معیار حق و صداقت ہے نہ کہ کثرت تعداد یا کثرت مقدار فرمایا فاتقوا اللہ یا ولی الالباب اسے صاحب عقل و خرد لوگو ! اللہ سے ڈر جائو۔ اس کی وحدانیت کے خلاف کوئی بات نہ کرو۔ اس کے بتلائے ہوئے پاکیزہ اصولوں پر عمل کرو لعلکم تفلحون تاکہ تمہیں فلاح و کامیابی نصیب ہوجائے۔ ان اصولوں پر عمل کرنے سے دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوگی اور آخرت میں بھی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔
Top