Jawahir-ul-Quran - Hud : 118
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَجَعَلَ : تو کردیتا النَّاسَ : لوگ (جمع) اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک وَّ : اور لَا يَزَالُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے مُخْتَلِفِيْنَ : اختلاف کرتے ہوئے
اور اگر چاہتا تیرا رب کر ڈالتا لوگوں کو98 ایک راستہ پر اور ہمیشہ رہتے ہیں اختلاف میں99
98:۔ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کے بعد وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ محذوف ہے بقرینہ آیت سورة مائدہ رکوع 7 وَلَوْ شَاءَ اللہ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحَدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ الایۃ۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی دن (توحید) پر متفق کردیتا لیکن اس صورت میں ابتلاء و امتحان کی حکمت فوت ہوجاتی اور اس طرح سب کا ایمان جبری ہوتا حالانکہ جبری ایمان مطلوب نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کو واضح کرنے کے بعد سمجھ بوجھ کیساتھ دونوں مییں سے ایک کو قبول کرنے کا اختیار دیا۔ اسی اختیار پر جزا وسزا مبنی ہے۔ 99:۔ لوگوں کو چونکہ ایک دین کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا اس لیے وہ ہمیشہ آپس میں مختلف رہیں گے کوئی حق پر ہوگا کوئی باطل پر مگر جن پر اللہ کی رحمت اور اللہ کی توفیق جن کے شامل حال ہوئی ان میں عقائد اور اصول دین کا کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ ای للاختلاف او الابتلاء اور اللہ نے اختلاف یا امتحان ہی کے لیے تو لوگوں کو پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے جو راستہ چاہیں اختیار کریں توحید کا یا شرک کا پھر اسی کے مطابق جزا و سزا ہوگی۔ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ الخ : قضاء و قدر میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ جہنم کو مشرک جنوں اور انسانوں سے بھرا جائے گا اس لیے لوگوں کا دین واحد پر متفق ہونا ممکن نہیں اور ان کے درمیان اختلاف کا پایا جانا ناگزیر ہے۔
Top