بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
ا لر یہ کتاب ہے2 کہ جانچ لیا ہے اس کی باتوں کو پھر کھولی گئی ہیں3 ایک حکمت والے4 خبردار کے پاس سے
2: پہلا دعویٰ ۔ صرف اللہ ہی کو پکارو۔ یہ اصل مضمون کے لیے بمنزلہ تمہید ہے۔ کِتَابٌ مبتدا محذوف کی خبر ہے اي ھذا کتاب اور کتاب کی تنوین تعظیم کیلئے یہ عظیم الشان اور جلیل القدر کتاب ہے والتنوین فیه للتعظیم اي کتاب عظیم الشان جلیل القدر (روح ج 11 ص 203) ۔ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُهٗ ، کِتَابٌ کی پہلی صفت ہے۔ آیتوں کے محکم اور مضبوط ہونے سے مراد یہ ہے وہ باہمی تناقض سے محفوظ ہیں، حکمت اور نفس الامر کے خلاف ان میں کوئی بات نہیں اور فصاحت و بلاغ کے اعتبار سے وہ تمام لفظی اور معنوی خوبیوں سے آراستہ ہے (روح) ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں محکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تورات و انجیل کی طرح اس کے بعد کوئی ناسخ کتاب نہیں آئیگی۔ قال ابن عباس ای لم ینسخھا کتاب بخلاف التورۃ والانجیل (قرطبی ج 9 ص 2) ۔ 3: ثُمَّ تعقیب ذکری کیلئے ہے تراخی کے لیے نہیں۔ فُصِّلَتْ جدا جدا بیان کی گئی ہیں جس طرح جواہرات کے ہار میں خاص قسم کے آبدار موتی پرو کر اس کے حصے جدا جدا کیے جاتے ہیں اسی طرح قرآن مجید میں دلائل توحید، احکام، نصائح اور واقعات کو ذکر کیا گیا ہے کا لعقد المفصل بالفرائد التی تجعل بین اللآلی و وجہ جعلھا کذلک اشتمالھا علی دلائل التوحید و الاحکام والمواعظ والقصص (روح ج 11 ص 204) ۔ امام زجاج، ابن جریر، فراء اور کسائی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس میں مسئلہ توحید اور نفی شرک کی تفصیل کی گئی ہے اور اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ ، فُصِّلَتْ سے متعلق ہے۔ حوالے آگے آرہے ہیں۔ 4: یہ بھی کِتَابٌ کی صفت ہے یعنی یہ عظیم شان کتاب جو محکم اور مفصل ہے حکیم وخبیر کی طرف سے آئی ہے کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ کتاب کی یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا پرتو ہیں المعنی احکمھا حکیم وفصلھا ای بینھا وشرحھا خبیر عالم بکیفیات الامور ففی الایۃ اللف والنشر المرتب (روح ج 11 ص 205 وکذا فی الکبیر) ۔
Top