Jawahir-ul-Quran - Hud : 41
وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَقَالَ : اور اس نے کہا ارْكَبُوْا : سوار ہوجاؤ فِيْهَا : اس میں بِسْمِ اللّٰهِ : اللہ کے نام سے مَجْرٖ۩ىهَا : اس کا چلنا وَمُرْسٰىهَا : اور اس کا ٹھہرنا اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور بولا39 سوار ہوجاؤ اس میں اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا تحقیق میرا رب ہے بخشنے والا مہربان
39: بِسْمِ اللّٰہِ میں باء استعانت کے لیے ہے۔ اس کشتی میں سوار ہوجاؤ، یہ کشتی محض اللہ کی اعانت و توفیق سے اپنے سواروں کے ساتھ صحیح وسالم منزل مقصود پر پہنچ کر لنگر انداز ہوگی۔ وَھِیَ تَجْرِیْ الخ اس سے پہلے اندماج سے یعنی تمام مومنین اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے اہل بیت بیوی اور ایک بیٹے کے علاوہ کشی میں سوار ہوگئے، طوفان زوروں پر آگیا اور کشتی نوح پہاڑ ایسی بلند ومہیب موجوں میں سے اللہ کی حفاظت سے گذر رہی تھی کہ برے دور حضرت نوح (علیہ السلام) کی نظر اپنے بیٹے پر پڑگئی۔ یہ بیٹا کنعان مشرک تھا اور کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اسے آواز دی بیٹٓ اب بھی وقت ہے ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجاؤ اور کافروں کے ساتھ لقمہ طوفان نہ بنو۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کا مشرک ہونا معلوم تھا مگر انہوں نے سمجھا کہ اس ہولناک طوفان کو دیکھ کر شاید وہ ایمان لے آئے اس لیے اسے کشتی کی طرف بلایا۔ لیکن بہت سے محققین امام ماتریدی وغیرہ نے کہا ہے کہ وہ منافق تھا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس کا علم نہ تھا وہ اسے اپنے دین توحید پر سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اس کو کشتی میں سوار ہوجانے کو کہا۔ قیل انما ناداہ لانہ کان ینافقہ فظن انہ مومن واختارہ کثیر من المحققین کالماتریدی وغیرہ وقیل کان یعلم انہ کافر الی ذلک اوقت لکنہ (علیہ السلام) ظن انہ عند مشاہدۃ تلک الاھوال و بلوغ اسیل الربی ینزجر عما کان علیہ (روح ج 12 ص 59) ۔
Top