Jawahir-ul-Quran - Hud : 88
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ١ؕ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ١ؕ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : کیا تم دیکھتے ہو (کیا خیال ہے) اِنْ : اگر كُنْتُ : میں ہوں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّيْ : اپنا رب وَرَزَقَنِيْ : اور اس نے مجھے روزی دی مِنْهُ : اپنی طرف سے رِزْقًا : روزی حَسَنًا : اچھی وَمَآ اُرِيْدُ : اور میں نہیں چاہتا اَنْ : کہ اُخَالِفَكُمْ : میں اس کے خلاف کروں اِلٰي : طرف مَآ اَنْهٰىكُمْ : جس سے میں تمہیں روکتا ہوں عَنْهُ : اس سے اِنْ : نہیں اُرِيْدُ : میں چاہتا اِلَّا : مگر (صرف) الْاِصْلَاحَ : اصلاح مَا : جو (جسقدر) اسْتَطَعْتُ : مجھ سے ہوسکے وَمَا : اور نہیں تَوْفِيْقِيْٓ : میری توفیق اِلَّا : مگر (صرف) بِاللّٰهِ : اللہ سے عَلَيْهِ : اس پر تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف اُنِيْبُ : میں رجوع کرتا ہوں
بولا اے قوم دیکھو تو77 اگر مجھ کو سمجھ آگئی اپنے رب کی طرف سے اور اس نے روزی دی مجھ کو نیک روزی اور میں یہ نہیں چاہتا کہ بعد کو خود کروں وہ کام جو تم سے چھڑاؤں میں تو چاہتا ہوں سنوارنا جہاں تک ہو سکے اور بن آنا ہے اللہ کی مدد سے اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے
77:۔ رِزْقًا حَسَنًا نبوت و حکمت مراد ہے (مدارک و روح) میں تمہیں شرک اور بد دیانتی سے اپنی مرضی سے نہیں روکتا ہوں بلکہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کے حکم سے ایسا کرتا ہوں۔ اور میرے پاس توحید کے حق میں اور شرک و بد دیانتی کے رد میں واضح دلائل بھی موجود ہیں۔ میں کوئی بات بےدلیل نہیں کہتا۔ اور جن کاموں سے تمہیں منع کر رہا ہوں اس سے میرا مقصد یہ نہیں کہ تمہیں تو ان سے منع کروں لیکن خود ان کاموں کا ارتکاب کرلوں۔ مفسرین کرام نے عام طور پر یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ لیکن اس صورت میں اس کا تعلق مسئلہ توحید سے نہیں رہے گا کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا دوسروں کو شرک سے منع کرنا اور عیاذًا باللہ خود اس کا ارتکاب کرنا امر محال ہے جس کا ان کے بارے میں وہم بھی نہیں ہوسکتا البتہ ناپ تول سے دوسروں کی حق تلفی سے اس کا تعلق ہوگا یعنی میرا ارادہ یہ نہیں کہ میں تم کو تو دوسروں کی حق تلفی اور بددیانتی سے دولت کمانے سے منع کروں لیکن خود اس کام میں لگ جاؤں۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں اِلٰی مَا اَنْھَاکُمْ حال ہے ای حال کونی داعیا الی مَا اَنْھَاکُمْ یعنی مسئلہ توحید بیان کرنے، شرک اور بد دیانتی سے تمہیں روکنے سے میرا مقصد تمہاری مخالفت نہیں بلکہ میں تو حتی الوسع تمہاری اصلاح اور خیر خواہی چاہتا ہوں۔ مگر میری اس خواہش کے پورا ہونے کی توفیق اللہ کے اختیار میں ہے اور یہ مقصد محض اللہ کی تائید اور اس کے ارادے ہی سے پورا ہوسکتا ہے۔ تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور تمام مہمات میں میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس طرح حضرت شیخ (رح) کی تفسیر پر یہ آیت دونوں مذکورہ مسئلوں سے متعلق ہوجائے گی۔
Top