Jawahir-ul-Quran - Ibrahim : 31
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ
قُلْ : کہ دیں لِّعِبَادِيَ : میرے بندوں سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے يُقِيْمُوا : قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُنْفِقُوْا : اور خرچ کریں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : چھپا کر وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر مِّنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ يَّاْتِيَ : کہ آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خِلٰلٌ : اور نہ دوستی
کہہ دے میرے بندوں کو32 جو ایمان لائے ہیں قائم رکھیں نماز اور خرچ کریں ہماری دی ہوئی روزی میں سے پوشیدہ اور ظاہر پہلے اس سے کہ آئے دن جس میں نہ سودا ہے نہ دوستی
32:۔ یہ توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے یہ دلیل تفصیلی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام عالم کا خالق ہے عالم علوی (اصمان، سورج، چاند) ۔ عالم سفلی (زمین، دریا، سمندر، حجر وشجر، بحر وبر) اور فضاء آسمانی میں جو کچھ ہے بادل بارش وغیرہ سب پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہے اور ساری کائنات اس کے اختیار و تصرف میں اور اس کی مطیع فرمان ہے۔ زمین و آسمان کو اس نے پیدا کیا، بارش وہ برساتا اور پھل بھی وہی پیدا کرتا ہے، سمندروں میں بحری جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، دریا میں بحری جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، دریا اور ندیاں اس کے تابع فرمان ہیں۔ سورج چاند اور دن رات ہمارے نفع کے لیے اس کے حکم سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ تو کیا پھر اللہ کے سوا کوئی اور کارساز اور مالک و مختار ہے ؟ ہرگز نہیں۔ اہل بدعت اس آیت سے اولیاء اللہ کے متصرف و مختار ہونے پر استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے یہ سب کچھ تمہارے تابع کردیا ہے۔ مگر یہ استدلال سراسر باطل ہے اول اس لیے کہ لَکُمْ میں ضمیر خطاب عام ہے جو تمام بنی آدم حتی کہ کفار کو بھی شامل ہے۔ دوم اس لیے کہ تسخیر سے یہ مراد نہیں کہ سب کچھ ان کے تابع فرمان کردیا گیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے حکم سے تمہارے فائدے کے کاموں میں لگا دیا ہے۔
Top