Jawahir-ul-Quran - Ibrahim : 38
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُ١ؕ وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو تَعْلَمُ : تو جانتا ہے مَا نُخْفِيْ : جو ہم چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو نُعْلِنُ : ہم ظاہر کرتے ہیں وَمَا : اور نہیں يَخْفٰى : چھپی ہوئی عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مِنْ : سے۔ کوئی شَيْءٍ : چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي : مین السَّمَآءِ : آسمان
اے رب ہمارے توُ تو جانتا ہے37 جو کچھ ہم کرتے ہیں چھپا کر اور جو کچھ کرتے ہیں دکھا کر اور مخفی نہیں اللہ پر کوئی چیز زمین میں نہ آسمان میں
37:۔ یہ اسم اعظم ہے یعنی تو سب کچھ جاننے والا ہے۔ اسی طرح ” اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَاءِ “ بھی اسم اعطم ہے جیسا کہ سورة بقرہ رکوع 15 میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں ہے ” اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ “ یعنی تو ہی سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ہر پیغمبر جن کلمات سے اپنی دعوت توحید کا اظہار کرتا ہے وہی اسم اعظم ہوتا ہے۔ اس سے کبھی تو مخاطب کو دعوت توحید دینا مقصود ہوتا ہے اور کبھی اپنے علم اور عقیدہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے یہاں دوسرا مقصد پیش نظر ہے ” وَ مَا یَخْفٰی عَلَی اللہِ مِنْ شَیْءٍ الخ “ یہ ادخال الٰہی ہے یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کلام سے متصل ہے۔
Top