Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 28
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١۪ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ١ؕ بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ تَتَوَفّٰىهُمُ : ان کی جان نکالتے ہیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے ظَالِمِيْٓ : ظلم کرتے ہوئے اَنْفُسِهِمْ : اپنے اوپر فَاَلْقَوُا : پس ڈالیں گے السَّلَمَ : پیغام اطاعت مَا كُنَّا نَعْمَلُ : ہم نہ کرتے تھے مِنْ سُوْٓءٍ : کوئی برائی بَلٰٓى : ہاں ہاں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
جن کی24 جان نکالتے ہیں فرشتے اور وہ برا کر رہے ہیں اپنے حق میں تب ظاہر کریں گے اطاعت کہ ہم تو کرتے نہ تھے کچھ برائی کیوں نہیں اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے تھے
24:۔ یہ الکافرین کی صفت ہے اور یہاں سے لے کر ” فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ “ تک ادخال الٰہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے بیان فرمایا ہے کہ ظالموں یعنی مشرکوں کا یہ حال ہوگا۔ ” ظَالِمِیْ اَنْفُسِھِمْ “ یہ ” تَتَوَفّٰهُمْ “ کی ضمیر منصوب سے حال ہے یعنی یہ مشرکین شرک کی وجہ سے اپنے اوپر طلم کرتے رہے اور مرتے دم تک شرک پر ڈٹے رہے۔ ” تَتَوَفّٰهُمُ الْمَلٰئِکَةُ “ سے معلوم ہوا کہ جان قبض کرنے پر صرف ایک فرشتہ (عزرائیل) ہی مقرر نہیں بلکہ اس کام پر بہت سے فرشتے مامور ہیں جو عزرائیل کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ اس سے اہل بدعت کا یہ استدلال باطل ہوگیا کہ اگر ایک عزرائیل فرشتہ ایک وقت میں ہزاروں جگہوں میں حاضر ہو کر لوگوں کی جانیں قبض کرسکتا ہے تو پھر حضور ﷺ بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہوسکتے ہیں۔ ” فَادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ الخ “ تخویف اخروی۔
Top