Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
اتارتا ہے فرشتوں کو4 بھید دے کر اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں کہ خبردار کر دو کہ کسی کی بندگی نہیں سوا میرے سو مجھ سے ڈرو5
4:۔ یہ دعوی توحید کا ذکر ہے جس کے انکار کی وجہ سے عذاب آیا ” الرُّوْحُ “ یعنی وحی یہاں اس سے مسئلہ توحید مراد ہے جیسا کہ ” اَنْ اَنْذِرُوْا “ سے اس کی تفسیر کی گئی ہے۔ یہی مضمون ایک دوسری آیت میں بھی مذکور ہے۔ ” یُلْقِی الرُّوْحَ عَلیی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهٖ “ (مؤمن رکوع 2) ۔ وحی کو روح اس لیے کہا گیا کہ اس سے مردہ دلوں کو حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے اور مسئلہ توحید کو روح سے تعبیر کیا گیا کیونکہ توحید باری تعالیٰ دین میں بمنزلہ روح ہے۔ جس طرح روح پر بدن کی زندگی منحصر ہے اور روح کے بغیر بدن لاشہ مردار ہے اسی طرح توحید تمام احکام شرعیہ اور اعمال صالحہ کی جان ہے اور توحید کے بغیر تمام اعمال صالحہ رائیگاں اور تمام عبادات بیکار اور باطل محض ہیں۔ 5:۔ یہ ” اَلرُّوْحُ “ سے بدل ہے یا اس کی تفسیر ہے۔ یعنی جس روح یعنی وحی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے وہ یہ ہے (روح) اور انذار بمعنی اعلام ہے والمعنی اعلموا الناس قولی لا الہ الا انا فاتقون (مدارک ج 2 ص 216) ۔ یعنی لوگوں کو میری بات بتا دو کہ میرے سوا کوئی متصرف و کارساز اور مستحق نذر و نیاز نہیں۔ اس لیے میرے عذاب سے ڈرو اور شرک نہ کرو۔ چونکہ عذاب الٰہی آنے کا وقت قریب تھا، اس لیے دلائل عقلیہ، نقلیہ اور وحی سے مسئلہ توحید کو خوب واضح کردیا گیا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ دعوی اولی دوسرے دعوے کے لیے بمنزلہ علت ہے اس لیے پہلے اس پر دلائل ذکر کیے گئے۔
Top