بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ذات ہے2 جو لے گیا اپنے بندے کو3 راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے تاکہ4 دکھلائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے وہی ہے سننے والا دیکھنے والاف 5
2:۔ اس آیت میں معجزہ اسراء کا ذکر ہے۔ معجزہ اسراء یعنی معجزہ معراج کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ روحانی تھا کہ جسمانی۔ بعض صحابہ ؓ اور بعض تابعین سے منقول ہے کہ معراج روحانی تھا یعنی آنحضرت ﷺ کو یہ سیر خواب میں کرائی گئی اور تمام ملکوت کا آپ نے حالت خواب میں مشاہدہ فرمایا۔ لیکن جمہور صحابہ ؓ اور جمہور امت کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا معراج بجسد عنصری تھا اور حالت بیداری میں تھا۔ مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے لے کر ساتوں آسمانوں کے اوپر جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ کو عجائب ملکوت کا بجسد عنصری بحالت بیداری بشم سر مشاہدہ کرایا۔ وذھب معظم السلف والمسلمین الی انہ کان اسراء بالجسد و فی الیقظۃ الخ (قرطبی ج 10 ص 208) والاصح بل الصحیح ان الاسراء فی الیقظۃ بعد البعثۃ مرۃ واحدۃ الخ ( جامع البیان ص 241) ۔ معراج کے دو حصے ہیں ایک مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصی تک دوم مسجد اقصی سے لے کر الی ماشاء اللہ معراج کا پہلا حصہ یہاں مذکور ہے اور دوسرا حصہ سورة النجم اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معراج کے دونوں حصے ایک وقت میں واقع نہیں ہوئے بلکہ پہلی بار مسجد حرام سے مسجد اقصی تک ہوا پھر دوسری بار دوسرے وقت میں مکہ مکرمہ سے آسمانوں تک ہوا۔ مگر جمہور کا قول یہی ہے کہ مسجد حرام سے لے کر آسمانوں تک کا سارا واقعہ مسلسل ایک ہی وقت میں پیش آیا۔ وانہ رکب البراق بمکۃ ووصل الی بیت المقدس و صلی فیہ ثم اسری بجسدہ الخ (قرطبی) واقعہ معراج کو اس لیے ذکر کیا گیا کہ مشرکین مکہ بطور تمسخر آنحضرت ﷺ سے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قحط سالی کا عذاب مسلط کردیا جو کئی سال تک جاری رہا جیسا کہ سورة نحل میں مذکور ہوچکا ہے۔ مگر اس عذاب کو دیکھ کر بھی وہ ایمان نہ لائے بلکہ معجزہ کا مطالبہ کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے واقعہ معراج ظاہر کر کے ان کو ایک بہت بڑا معجزہ دکھایا کہ اگر اس کے بعد بھی نہ مانو گے تو ہلاک کردئیے جاؤ گے چناچہ جنگ بدر کبریٰ میں ان منکرین کو قتل کردیا گیا۔ ” سبحن الذی الخ “ سبحانا تسبیحا کے معنوں میں ہے، اور وہ فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے۔ ای سبحوا سبحانا الذی الخ یعنی ہر عیب سے پاک سمجھو جس طرح کہ پاک سمجھنے کا حق ہے اس ذات پاک کو جس نے توحید بیان کرنے والے اپنے بندہ خاص کو سیر کرائی تسبیح کے معنی ہر عیب اور برائی سے پاک اور منزہ کہنے کے ہیں۔ ومعناہ التنزیہ والبراءۃ للہ عز وجل من کل نقص الخ (قرطبی ج 10 ص 204) ۔ شرک ایک بہت بڑا عیب ہے جو ذات باری تعالیٰ کے لائق نہیں اور اس کی ذات اس سے پاک ہے جیسا کہ فرمایا ” سبحن اللہ عما یشرکون “ اور ” سبحنہ و تعالیٰ عما یشرکون “ اس طرح اس میں دعوی سورت کا ذکر ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور اسے ہر شریک سے پاک سمجھو۔ نیز یہ دلیل وحی ہے یعنی میں تمہیں اللہ کی وحی سنا رہا ہوں کہ اللہ کو شرک سے پاک سمجھو یہ پہلی آیت معجزہ بھی ہے جس میں معجزہ معراج کا ذکر کیا گیا ہے آیات معجزہ سے مقصود تخویف ہے یعنی اگر یہ معجزہ دیکھ کر بھی مسئلہ توحید نہیں مانو گے تو اللہ کا عذاب آئے گا۔ 3:۔ عبد سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں۔ واقعہ معراج آنحضرت ﷺ کے لیے بہت بڑا شرف ہے جو کسی اور پیغمبر کو نصیب نہیں ہوا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نےحضور ﷺ کو ایسے نام یعنی عبد سے یاد فرمایا جو اسے سب سے زیادہ پسند تھا۔ قال العلماء لو کان للنبی ﷺ اسم اشرف منہ لسماہ بہ فی تلک الحالۃ العلیۃ (قرطبی ج 41 ص 205) ۔ نیز آپ کی امت کو تواضع کا سبق دینا تھا اور یہ بتانا تھا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بایں شرف و اعزاز اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور صفت بندگی کسی حال میں ان سے جدا نہیں ہوسکتی۔ ” لَیْلًا “ کی تنکیر تقلیل کے لیے ہے یعنی ہم نے رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے بندے کو سیر کرائی۔ 4:۔ لام عاقبت کے لیے ہے۔ اور ” من ایتنا “ سے وہ عجائب قدرت مراد ہیں جو آپ کو اس سیر کے دوران میں دکھائے گئے۔ من عجائب قدرتنا و قد رای ھناک الانبیاء والایات الکبری (معالم ج 4 ص 128) ۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ ” من ایاتنا “ سے مشکین کی ہلاکت مراد ہے۔ یعنی ہم یہ عظیم معجزہ معراج اپنے بندہ خاص کو اس لیے دکھایا تاکہ اس کے بعد اگر مشرکین مکہ مسئلہ توحید کا انکار کریں تو ہم ان معاندین کی ہلاکت میں آپ کو اپنی قدرت کا ایک عظیم اور حیرت انگیز نشان دکھائیں۔ چناچہ جب مشرکین نے معجزہ اسراء کے بعد بھی مسئلہ توحید کو نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں بےساز و سامان مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں مشرکین کے مسلح اور کئی گنا بڑے لشکر کو ذلت و خواری کے ساتھ معجزانہ طور پر شکست دی۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا ” لنریک من ایاتنا الکبری “ (طہ رکوع 2) ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ والسلام کو پیغام توحید دیا۔ ” اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی “ اس کے بعد اس مسئلہ توحید کی خاطر معجزہ عصا اور ید بیضا عطا فرمایا کہ قوم فرعون کے سامنے مسئلہ توحید پیش کرو، اپنی سچائی اور مسئلہ کی حقانیت ظاہر کرنے کے لیے یہ معجزات دکھاؤ۔ اگر انہوں نے ان معجزات کے بعد بھی مسئلہ نہ مانا تو ہم فرعون اور اس کی قوم کو آپ کے سامنے اس طرح ہلاک کریں گے کہ ان کی ہلاکت بھی ہماری قدرت کا ایک عجیب کرشمہ اور اعجاز ہوگی چناچہ قوم فرعون کو سمندر کے خشک راستوں میں جو بنی اسرائیل کی سلامتی کے لیے معجزانہ طور پر بنائے گئے تھے، داخل کر کے ہلاک کیا گیا۔ چناچہ جبحضور ﷺ نے صبح اٹھ کر واقعہ معراج کا پہلا حصہ مشرکین کے سامنے بیان کیا کہ میں آج رات بیت المقدس سے ہو کر آگیا ہو تو سب نے تعجب کیا اور نہ مانا۔ مشرکین میں سے ایک شخص دوڑتا ہوا حضرت ابوبکر کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اے ابوبکر ! کیا اب بھی محمد کو مانو گے ؟ فرمایا بات کیا ہے ؟ اس نے کہا محمد کہتے ہیں کہ میں آج رات بیت المقدس کی سیر کر آیا ہوں تو حضرت صدیق ؓ نے فرمایا اس میں کونسی تعجب کی بات ہے آپ نے سچ فرمایا ہے ہم تو آپ کی آسمانوں والی باتیں مان لیتے ہیں تو زمین والی کیوں نہ مانیں گے۔ مشرکین نے آزمائش کے لیے آپ سے بیت المقدس کی نشانیاں پوچھیں اس سے آپ کو بہت غم ہوا کیونکہ آپ بیت المقدس کی نشانیاں یاد کرنے کے لیے تو وہاں نہیں گئے تھے جو لوگ سالہا سال کسی جگہ رہیں اس جگہ کی ساری علامتیں تو انہیں بھی معلوم نہیں ہوتیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کا نقشہ آپ کے سامنے حاضر کر کے آپ کا غم دور فرمادیا۔ چناچہ مشرکین نے جو بات پوچھی آپ نے صحیح بتا دی۔ راستہ میں آپ کو جو قافلے ملے ان کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا وہ بھی بالکل درست ثابت ہوا (خازن و معالم ج 4 ص 137، 138) مگر ان تمام باتوں کے باوجود مشرکین مکہ نے اس اعجاز قدرت کو جادو کہہ کر رد کردیا اور نہ مانا آخر جنگ بدر میں عذاب قتل سے ہلاک کیے گئے۔ 5:۔ ” انہ ھو السمیع البصیر “ یہ توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ ھو ضمیر فصل اور خبر کا معرفہ ہونا افادہ حصر کے لیے ہے یعنی بیشک وہی سب کچھ سننے والا اور وہی سب کچھ دیکھنے والا ہے اس کے سوا کوئی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا نہیں لہذا عبادت میں، دعاء اور پکار میں اس کا شریک بھی کوئی نہیں۔ انہ ھو السمیع لاقوال جمیع خلقہ البصیر بافعالھم (خازن ج 4 ص 128) ۔
Top