Jawahir-ul-Quran - Al-Israa : 3
ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا
ذُرِّيَّةَ : اولاد مَنْ : جو۔ جس حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا مَعَ نُوْحٍ : نوح کے ساتھ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا عَبْدًا : بندہ شَكُوْرًا : شکر گزار
تم جو اولاد ہو ان لوگوں کی جن کو7 چڑھایا ہم نے نوح کے ساتھ بیشک وہ تھا بندہ حق ماننے والا
7:۔ یہ منادی ہے اور اس سے قبل حرف نداء محذوف ہے۔ ای یا ذریۃ الخ اس کا مقصود بالنداء محذوف ای اشکروا یعنی اے اولاد نوح شکر گزار بنو اور اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی شکر گذار بندے تھے وہ شرک نہیں کرتے تھے جنہوں نے ساڑھے نو سو سال لوگوں کو اللہ کی توحید سنائی اور توحید کی خاطر تکلیفیں اٹھائیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو طوفان سے اس لیے بچایا کہ وہ اللہ کے شکر گذار اور توحید کو ماننے والے تھے جب کہ ناشکر گذاروں اور مشرکوں کو غرق کردیا گیا۔ پس تم بھی اے مشرکین عرب مانند نوح شکور اور موحد بنو اللہ کے عذاب سے بچ جاؤ گے اور اگر ناشکری کرو گے تو قوم نوح کی طرح ہلاک کردئیے جاؤ گے۔ فکانہ قیل کونوا موحدین شاکرین لنعم اللہ مقتدین بنوح الذی انتم ذریۃ من حمل معہ (بحر ج 6 ص 7) ۔ یہاں تک تینوں آیتیں بظاہر غیر مربوط معلوم ہوتی ہیں چناچہ ان کے ظاہر کو دیکھ کر کئی مفسرین کو تطبیق میں سخت اشکال پیش آیا، کیونکہ پہلے واقعہ معراج کا ذکر ہے اس کے بعد ” و اتینا موسیٰ الکتب “ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دینے کا ذکر ہے پھر اس کے بعد ” ذریۃ من حملنا مع نوح “ نوح میں ایک نئی بات مذکور ہے لیکن ہماری مذکورہ بالا تقریر سے یہ آیتیں بالکل باہم مربوط ہوجاتی ہیں اور بےربطی کا کوئی اشکال نہیں رہنتا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ” سبحن الذی الخ “ میں فرمایا اس اللہ کو شرک سے پاک سمجھو جس نے مسئلہ توحید منوانے کے لیے معجزہ اسراء دکھایا اس کے علاوہ عقل سلیم کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ ہر شرک سے پاک ہے کیونکہ وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے اور ساتھ ہی کتب سابقہ مثلاً تورات کی بھی یہی تعلیم ہے لہذا اے اہل مکہ ہم تمہیں بھی حکم دیتے ہیں کہ اس مسئلہ کو مان لو جو دلیل وحی اور دلائل عقل و نقل سے ثابت ہے۔
Top