Jawahir-ul-Quran - Al-Israa : 39
ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ١ؕ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا
ذٰلِكَ : یہ مِمَّآ : اس سے جو اَوْحٰٓى : وحی کی اِلَيْكَ : تیری طرف رَبُّكَ : تیرا رب مِنَ الْحِكْمَةِ : حکمت سے وَلَا : اور نہ تَجْعَلْ : بنا مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : معبود اٰخَرَ : کوئی اور فَتُلْقٰى : پھر تو ڈالدیا جائے فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّدْحُوْرًا : دھکیلا ہوا
یہ ہے ان باتوں میں39 سے جو وحی بھیجی تیرے رب نے تری طرف عقل کے کاموں سے اور نہ ٹھہرا اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی پھر پڑے تو دوزخ میں الزام کھا کر دھکیلا جا کر
39:۔ مذکورہ بالا احکام کی طرف اشارہ ہے یعنی احکام مذکورہ سراپا حکمت الٰہی پر مبنی ہیں اور ان کی پیروی ہی میں انسانوں کی بہتری اور بھلائی ہے۔ ” ولا تجعل مع اللہ الخ “ دفع عذاب کے لیے امور ثلثہ کے ذکر سے پہلے بھی دعوی توحید کا ذکر کیا گیا ” لا تجعل مع اللہ الھا اخر فتقعد مذموما مخذولا “ اور پھر امور ثلثہ کے بعد بھی دعوی توحید کا اعادہ کیا گیا اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ان تمام تکالیف سے اصل مقصود اور اصلی مدعا توحید ہے۔ مخلوق خدا پر احسان کرنا بہت اچھا ہے اور مخلوق خدا پر ظلم کرنا بہت برا ہے لیکن تمام اعمال خیر کی بنیاد توحید پر ہے اور تمام اعمال شر سے شرک ایک بدترین شر ہے۔ کر رہ لانہ المقصود و التوحید راس کل حکمۃ (جامع البیان ص 245) انہ تعالیٰ بدا فی ھذہ التکالیف بالامر بالتوحید والنھی عن الشرک و ختمھا بعین ھذا المعنی والمقصود منہ التنبیہ علی ان اول کل عمل وقول وفکر وذکر یجب ان یکون ذکر التوحید واخرہ یجب ون یکون ذکر التوحید تنبیھا علی ان المقصود من جمیع التکالیف ھو معرفۃ التوحید والاستغراق فیہ الخ (کبیر ج 5 ص 593) ۔
Top