بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف اللہ کو3 جس نے4 اتاری اپنے بندہ پر کتاب اور نہ رکھی اس میں کچھ کجی
3:۔ ” الحمد للہ “ سورة فاتحہ کی تفسیر میں بالتفصیل گذر چکا ہے کہ قرآن مجید جہاں کہیں یہ جملہ (الحمد للہ) واقع ہوا ہے۔ وہاں حمد (تعریف) سے اللہ تعالیٰ کی صفات الوہیت یا بالفاظ دیگر صفاتِ کارسازی مراد ہیں۔ مثلا ً خالق ومالک اور رزق ہونا، عالم الغیب کارساز اور متصرف و مختار ہونا۔ مافوق الاسباب حاجت روا اور مشکلکشا ہونا وغیرہ تو اس جملے کا حاصل یہ ہے۔ کہ تمام صفات کارسازی اللہ تعالیٰ کی ذات مفیض برکات کے ساتھ خاص ہیں اور ان میں سے کوئی ایک صفت بھی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سے کسی ایک میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اور ” من فی السموات والارض “ (آسمان میں رہنے والوں، زمین بسنے والوں اور زیر خاک فروکش ہونے والوں) میں سے کوئی بھی ان صفات میں اس کا شریک نہیں۔ ” الحمد للہ “ میں جو دعوی کیا گیا ہے اس کا ماحصل دو جملوں میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب اور وہی متصرف و مختار ہے۔ 4:۔ ” الذی “ مو صول مع صلہ ماقبل کے لیے علت ہے یعنی صلہ کی صورت میں جو بات ذکر کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد ہونے کی دلیل ہے۔ وفی وصفہ تعالیٰ بالموصول اشعار بعلیۃ ما فی حیز الصلۃ الستحقاق الحمد (روح ج 15 ص 600) ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صلہ میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد ﷺ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی ہے۔ جس میں دونوں خوبیاں ہیں۔ (1) اس میں عِوَج (کجی) ۔ اس کا بیان بالکل واضح اور نکھرا ہوا ہے۔ اس کے الفاظ و معانی میں اصول فصاحت و بلاغت اور دعوت حق سے ذرہ بھر انحراف نہیں ای شیئا من العوج باختلال اللفظ من جھۃ الاعراب و مخالفۃ الفصاحۃ وتناقض المعنی و کونہ مشتملا علی ما لیس بحق او داعیا لغیر اللہ تعالیٰ (روح ج 15 ص 185) ۔ (2) اس کتاب کے مضامین پختہ اور ہر لحاظ سے ایسے جامع اور مکمل ہیں کہ ان سے منکرین کے تمام شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں۔ قیما ای مستقیما کما اخرجہ ابن المنذر عن الضحاک وروی ایضا عن ابن عباس (روح) ۔ ایسی خوبیوں والی کتاب نازل کرنا صرف اسی ذات سے ممکن ہوسکتا ہے جس کا علم محیط کل ہو اور وہ عالم الغیب ہو۔ اس سے دعوائے مذکور کا ایک حصہ ثابت ہوگیا۔ اس کے بعد قرآن نازل کرنے کی غرض وغایت بیان فرمائی۔” لینذر باسا شدیدا “ قرآن اس لیے نازل کیا تاکہ منکرین کو آخرت کے عذاب دردناک سے ڈرایا جائے اور ماننے والوں کو آخرت میں ملنے والے انعامات کی خوشخبری سنائی جائے اس سے اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت و تصرف کا پتہ چلتا ہے یہ دعوے کے دوسرے جزو کی دلیل ہے۔
Top