Jawahir-ul-Quran - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور مذکور کر کتاب میں مریم کا13 جب جدا ہوئی14 اپنے لوگوں سے ایک شرقی مکان میں
13:۔ یہ حضرت مریم صدیقہ اور حضرت مسیح (علیہما السلام) کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہ کا جواب ہے۔ حضرت مریم کے پاس بےموسم کے پھلوں کا موجود ہونا شبہہ میں ڈالتا تھا کہ شاید یہ خارج عادت امر ان کے قبضہ قدرت میں تھا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے خارق عادت امور کا ظاہر ہونا، جن کا ذکر سورة آل عمران رکوع 5 میں کیا گیا ہے۔ شبہہ میں ڈالتا تھا کہ شاید وہ بھی متصرف و مختار ہوں۔ نیز انجیل میں ان کے لیے لفظ ابن اللہ کا وارد ہونا (انجیل کی زبان میں جس کے معنی اللہ کے پیارے اور برگزیدہ کے ہیں) ۔ اس سے بھی وہم پڑتا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات ان کے حوالے کردئیے ہوں یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ بیان کر کے دونوں شبہوں کا رد کردیا گیا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ 14:۔ ای تنحت وتباعدت (قرطبی ج 11 ص 90) یعنی اپنے گھر سے نکل کر دور مشرق کی جانب کسی جگہ چلی گئی۔ ” فارسلنا الیھا روحنا “ روح سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں جو نہایت خوبصورت آدمی کی شکل میں حضرت مریم کے سامنے نمودار ہوئے۔ جب حضرت مریم نے ایک غیر محرم کو اپنے سامنے دیکھا تو خیال کیا کہ شاید برے ارادے سے آیا ہے تو فوراً بول اٹھیں ” انی اعوذ الخ “۔ ” ان کنت تقیا “ کی جزاء محذوف ہے۔ ای فانی عائذہ بالرحمن منک یعنی اگر تو پرہیز گار اور متقی ہے تو بھی میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ بعض نے فاذھب اور بعض نے تتعظ جزا مقدر کی ہے۔ یعنی اگر تو نیک ہے تو میرے سامنے سے چلا جا یا میرے استعاذے سے سبق حاصل کر اور مجھ سے کسی قسم کا تعرض نہ کر (کلہ من الروح ج 16 ص 77) ۔
Top