Jawahir-ul-Quran - Maryam : 2
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّاۖۚ
ذِكْرُ : ذکر رَحْمَتِ : رحمت رَبِّكَ : تیرا رب عَبْدَهٗ : اپنا بندہ زَكَرِيَّا : زکریا
یہ مذکور ہے تیرے رب کی رحمت کا اپنے بندہ زکریا پر رف 4
4:۔ یہ پہلے شبہہ کا جواب ہے۔ اس پورے واقعہ سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کا عجز و احتیاج ظاہر ہوتا ہے۔ وہ بیٹے کے لیے انتہائی عجز و نیاز سے دعا کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ متصرف و کارساز نہیں ہوسکتے۔ ” رحمۃ “ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے اور ” عبدہ زکریا “ مبدل منہ اور بدل مل کر اس کا مفعول ہے یہ مجموعہ مل کر ” ذکر “ کا مضاف الیہ ہے اور مرکب اضافی مبتدا محذوف ھذا کی خبر ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ رحمت جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر کی تھی۔ یہ اس کا ذکر ہے۔ ” نداء خفیا “ یعنی آہستہ اور چھپ کر یہ ” نادی “ کا مفعول مطلق ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعاء اخفاء اور آہستگی سے کی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے لیے جہر و اخفاء برابر ہے تو دعا میں اخفاء بہتر ہے جو ریاء سے ابعد اور اخلاص سے اقرب ہے۔ راعی سنۃ اللہ فی اخفاء دعوۃ لان الجھر والاخفا عند اللہ سیان فکان الاخفاء اولی لانہ ابعد عن الریاء وادخل فی الاخلاص (کبیر ج 5 ص 764) ۔
Top