Jawahir-ul-Quran - Maryam : 68
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّاۚ
فَوَرَبِّكَ : سو تمہارے رب کی قسم لَنَحْشُرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور جمع کریں گے وَالشَّيٰطِيْنَ : اور شیطان (جمع) ثُمَّ : پھر لَنُحْضِرَنَّهُمْ : ہم انہیں ضرور حاضر کرلیں گے حَوْلَ : ارد گرد جَهَنَّمَ : جہنم جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
سو قسم ہے تیرے رب کی ہم گھیر بلائیں گے ان کو48 اور شیطانوں کو پھر سامنے لائیں گے گرد دوزخ کے گھٹنوں پر گرے ہوئے
48:۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” الشیاطین “ اس سے شیاطین الجن والانس مراد ہیں۔ یعنی جنوں کے علاوہ وہ مولوی اور پیر جو ان کو گمراہ کرتے رہے یا ان کے ہمزاد جو انہیں گمراہ کیا کرتے تھے۔ یعنی کفار و مشرکین اپنے ہمزادوں کے ساتھ میدانِ حشر میں لائے جائیں گے۔ والمعنی انھ یحشرون مع قرنائہم من الشیاطین الذین اغو وھم یقرنون کل کافر مع شیطان فی سلسلۃ (قرطبی ج 11 ص 132) ۔ پھر ان سب کو جہنم کے گرد جمع کیا جائے گا۔ ” ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ الخ “ پھر تمام سرکش جماعتوں کو کفر و انکار اور سرکشی کے اعتبار سے اس طرح مرتب کریں گے کہ ہر جماعت کے سب سے زیادہ سرکش اور معاندین کو پہلی صف میں کھڑا کیا جائے گا۔ اس کے بعد ان سے کم سرکش لوگوں کو درجہ بدرجہ کھڑا کیا جائے گا۔ ” عِتِیًّا “ انتہائی سرکشی۔ ان معنی ثم لننزعن من کل شیعۃ ثم لننزعن من کل فرقۃ الاعتی فالاعتی کانہ یبتدا بالتعذیب باشدھم عتیا ثم الذی یلیہ وھذا نص کلام ابی اسحاق فی معنی الایۃ (قرطبی ج 11 ص 134) ۔
Top