Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے یعقوب کی اولاد میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی
یٰبَنِیْٓ اِسْرَائِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ : (اے بنی اسرائیل تم یاد کرو میری وہ نعمتیں جو میں نے تم پر کیں) دوبارہ تاکید کے لیے لائے۔ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ : (اور میں نے تمہیں فضیلت دی لوگوں کے جم غفیر پر) یعنی نعمتوں اور فضیلت عنایت کرنے کو یاد کرو۔ عالم یعنی لوگوں کے جم غفیر پر۔ کہا جاتا ہے۔ رایت عالما من الناس۔ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ مراد کثرت ہے۔ وَاتَّقُوْا یَوْمًا : (اور تم اس دن سے ڈرو) قیامت کے دن سے ڈرو۔ نحو : یومًا مفعول بہٖ ہے ظرف نہیں۔ لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ : (نہ کام آئے گا کوئی نفس) مومن نفس۔ عَنْ نَّفْسٍ : (کسی نفس کے) کافرنفس کے لیے۔ شَیْئًا : (کچھ بھی) یعنی کچھ بھی ادائیگی نہیں کرے گا۔ ان حقوق کی جو اس پر لازم ہیں۔ نحو : شیئًامفعول بہٖ ہے یعنی تھوڑا سا بدلہ اور جملہ محلًا منصوب ہے۔ اور یومًا کی صفت ہے۔ اور ضمیر اس میں، موصوف محذوف کی طرف جارہی ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے۔ لا تجزی فیہ۔ اس میں کام نہیں آئے گا۔ وَّلَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ : (اور اس سے کوئی شفاعت قبول نہ کی جائے گی) مکی وبصری قراءت میں تاء کے ساتھ ہے۔ اور ضمیر منھا میں نفس مومنہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ ! مطلب یہ ہوا کہ کسی نفس مومنہ کی کوئی شفاعت نفس کافرہ کے لیے مقبول نہ ہوگی۔ " کہا گیا ہے کہ یہود کو یہ زعم تھا کہ ان کے آباء انبیاء ( علیہ السلام) تھے وہ شفاعت کریں گے۔ تو ان کو مایوس کردیا گیا۔ وہ اس ارشاد الٰہی کی طرح ہے جو سورة المدثر آیت نمبر 48 فَمَا تَنْفَعُھُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ ہے۔ معتزلہ کا جواب : قول معتزلہ : معتزلہ نے اس آیت سے گناہ گاروں کے لیے شفاعت کی نفی ثابت کی۔ جواب : ان کا قول مردود ہے کیونکہ نفی شفاعت کفار کی کی گئی۔ حضور ( علیہ السلام) نے خود فرمایا۔ شفاعتی لا ھل الکبائر من امتی من کذب بھا لم ینلھا (احمد، ابو داؤد، ترمذی) دوسرا جملہ صرف احمد نے نقل کیا۔ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ : (نہ لیا جائے گا اس سے بدلہ) عدل، فدیہ، کیونکہ یہ فدیہ دینے والے کا معادل ہے۔ جمع کی حکمت : وَّلاَھُمْ یُنْصَرُوْنَ : (اور نہ ان کی مدد کی جائے گی) ان کی معاونت نہ کی جائے گی۔ ینصرون کو جمع لایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ نفس جو نکرہ آیا ہے اس سے مراد نفوس کثیرہ ہیں۔ (عباد، اناسی) معنی کا لحاظ کر کے مذکر لائے۔
Top