Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں بیماری ہے16 پھر بڑھا دی اللہ نے ان کی بیماری17 اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے18
16 ۔ ان کے باطن کی خرابی اور فساد عقائد کو بیماری سے تعبیر فرمایا۔ والمرض عبارۃ مستعارۃ للفساد الذی فی عقائدھم (قرطبی ص 197 ج 1 اور یہ لفظ نفاق رشک وریب، جحود و انکار، پیغمبر خدا ﷺ اور مسلمانوں سے عداوت اور بغض وحسد وغیرہ سب کو شامل ہے۔ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ شَک ونفاق (معالم ص 28 ج 1، ابن جریر ص 93 ج۔۔ استعیر ھھنا لما فی قلوبھم من الجھل وسوء العقیدۃ وعداوۃ النبی ﷺ وغیر ذلک من فنون الکفر (ابو السعود ص 307 ج 1) ومجازا بان یستعار لبعض اعراض القلب کسوء الاعتقاد والغل والحسد والمیل الی المعاصی فان صدورھم کانت تغلی علی رسول اللہ ﷺ غکا وغبقا (تفسیر نیشا پوری ص 154 ج 1) اور بیماری عضو کی اس غیر طبعی حالت کا نام ہے جس کی وجہ سے عضو کے طبعی افعال میں خلل وفتور واقع ہوجائے۔ یہ تمام امور چونکہ دل کو خدا کی معرفت اور اس کی سچی اطاعت اور مخلصانہ عبادت سے روکتے ہیں اس لیے یہ سب روحانی اور قلبی امراض ہیں (من الکبیر بتصرف۔ 17 ۔ شک ونفاق اور بغض وحسد کی یہ بیماری جو ان کے دلوں کو لگی ہوئی تھی کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی گئی۔ جوں جوں قرآن نازل ہوتا ان کا کفر وانفاق بڑھتا جاتا۔ کیونکہ ہر آیت کے ساتھ وہ منافقانہ سلوک کرتے۔ بظاہر اسے مانتے لیکن دل میں اس کا انکار کرتے یا جوں جوں پیغمبر خدا ﷺ اور مسلمانوں کو دشمنوں پر غلبہ واقتدار حاصل ہوتا گیا اور دین اسلام کی شان و شوکت میں ترقی ہوتی گئی تو ان کے دلوں کی جلن اور تکلیف اور ان کے سینوں میں بغض وحسد کی آگ بڑھتی گئی۔ اور زیادۃ اللہ تعالیٰ عرضھم اما بتضعیف حسدھم بنعم اللہ تعالیٰ علی رسولہ ﷺ والمومنین او ظلمۃ قلوبھم بتجدد کفرھم بما ینزل سبحانہ شیئا فشیا من الایات والذکر الحکیم (روح ص 145 ۔ 150) ۔ فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا میں فاء تعقیب کیلئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فاء کا مابعد ما قبل پر مرتب ہے۔ والفاء للدلالۃ علی ترتب مضمونھا ؟ ؟ (ابو السعود ص 307 ج 1) یعنی ان کی بیماری انہیں کی بد اعمالیوں اور بد پرہیزیوں کا نتیجہ ہے۔ باقی رہا اضافۂ مرض کو خدا کی طرف منسوب کرنا تو وہ محض اس لیے ہے کہ وہ مسبب الاسباب ہے اور فاعل حقیقی ہے۔ آیت کے ان دونوں حصوں میں منافقین کے انجام کی علت اور سبب کا بیان تھا ا آگے ان کے انجام کا ذکر ہے۔ 18 ۔ منافقین خبث باطن اور فساد عقیدہ کی خطرناک بیماری میں مبتلا تھے۔ خدا کی طرف سے آیات شفا لگاتار نازل ہوتی رہیں۔ مگر انہوں نے ان سے اعراض کیا اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ادنی سی کوشش نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا مرض بڑھتا گیا اور آخر ان کی ہلاکت کا باعث ہوا اور وہ دائمی عذاب اور دردناک سزا کے مستحق قرار پائے۔ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ ۔ یہاں با سببیت کے لیے اور ما مصدریہ ہے (روح ص 150 ج 1، ابو السعود ص 309 ج 1) اور فعل کانوقسد و دوام و استمرار کیلئے ہے (ابو السعود، روح ص 152 ج 1) یعنی مسلسل کذب بیانی اور نفاق پر لگاتار اصرار کی وجہ سے انہیں مذکورہ سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہاں جھوٹ بولنے سے وہی نفاق مراد ہے۔ یعنی دل میں اسلام کا انکار چھپائے ہوئے ہیں مگر زبان سے اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِکا اقرار کرتے ہیں۔ ومعناہ بکذبھم وقولھم امنا ولیسوا بمومنین (قرطبی ص 198 ج 1) ای بکذبھم فی قولھم امنا باللہ وبا لیوم الاخر (مدارک ص 16 ج 1) آگے منافقین کی مزید خباثتیں ذکر کرکے ان کے حال کو اور واضح کیا گیا ہے۔
Top