Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 123
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : وہ دن لَا تَجْزِي : بدلہ نہ ہوگا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَفْسٍ : کسی شخص سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا تَنْفَعُهَا : اور نہ اسے نفع دے گی شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ : اور نہ ان مدد کی جائے گی
اور ڈرو اس دن سے کہ نہ کام آوے کوئی شخص کسی کی طرف سے ذرا بھی اور نہ قبول کیا جاویگا اس کی طرف سے بدلہ اور نہ کام آوے اس کو سفارش اور نہ ان کو مدد پہنچے235
235 میرے پیغمبر پر ایمان لے آؤ اور دعوت توحید مان لو ورنہ قیامت کے دن تیرے عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہیں اس آیت کی تفسیر پہلے گذر چکی ہے۔ حصہ دوم۔ رسالت وما یتعلق بہا یہ حصہ وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ سے شروع ہو کر بائیسویں رکوع میں وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْن پر ختم ہوا ہے۔ پہلے مختصر سی تمہید ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کی صداقت اور حقیقت نبوت پر یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے مسلمات سے دلائل پیش کیے گئے ہیں، پھر رسالت پر چند شبہات کے جوابات اور آخر میں پیغامِ رسالت یعنی مسئلہ توحید کی مزید عقلی دلائل سے وضاحت کی گئی ہے۔ نزول قرآن کے وقت عرب میں مذہبی لحاظ سے تین گروہ زیادہ مشہور ومعروف تھے (1) مشرکین عرب (2) یہودی (3) نصاری۔ یہ تینوں گروہ نسلی اور روحانی اعتبار سے اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے منسلک کرتے تھے۔ مشرکین عرب بت پرستی کے باوجود اپنے آپ کو ابراہیمی کہتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متبع ہونے کے مدعی تھے اور پھر نرا دعویٰ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ شریعت ابراہیمی کے بعض اعمال بھی بجا لاتے تھے۔ گو ان اعمال کی شکل و صورت مسخ کر ڈالی تھی۔ مثلاً حج کرنا، قربانی دینا، ڈاڑھی رکھنا، ختنہ کرانا وغیرہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہما السلام) سے محبت وعقیدت غلو کے درجے تک پہنچی ہوئی تھی۔ چناچہ ان دونوں بزرگوں کے بت بنا کر بیت اللہ میں رکھے ہوئے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ ان کی نذریں منتیں دیتے، ان کے نام پر سانڈ چھوڑتے اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا اور عالم الغیب سمجھ کر غائبانہ پکارتے تھے۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا مانتے تھے۔ اور ہر دو فریق کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے مذہب پر ہیں اور ان کا مذہب انہیں سے چلا ہے۔ ان کے علاوہ یہودونصاریٰ حضرت اسحق، حضرت یعقوب، حضرت موسیٰ (علیہم السلام) اور اس سلسلے کے باقی تمام پیغمبروں کو بھی مانتے تھے۔ نصاریٰ ان سب کے علاوہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھی قائل اور متبع تھے۔ مخاطبیبن کے نزدیک ان مسلم شخصیات کی تصدیقات کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کی صداقت پر دو دلیلیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی دلیل تو یہ ہے کہ یہ وہی پیغمبر ہے جس کی آمد اور بعثت کیلئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل (علیہما السلام) نے بیت اللہ میں کھڑے ہو کر خدا کی جناب سے دعا کی تھی کہ " اے اللہ ! اس شہر مکہ میں ایک ایسا رسول بھیجنا جو ان کو تیرے احکام سنائے، تیرا دین سکھائے اور ان کے ظاہر و باطن کا تزکیہ کرے "۔ اب وہ رسول آگیا ہے اور بالکل انہیں صفات سے متصف ہے جو دعائے ابراہیم میں مذکور تھیں۔ لہذا اگر تم ابراہیمی ہونے کے دعوی میں سچے ہوں تو اس پیغمبر کو مان لو جو ان کی دعا کا ثمرہ ہے۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت یعقوب (علیہم السلام) اور ان کے سلسلہ کے باقی تمام پیغمبر خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک سب کے سب دین توحید کے پابند تھے، صرف ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ صرف اسے ہی حاجات ومشکلات میں پکارا کرتے تھے۔ مرتے وقت اپنی اولاد کو بھی توحید پر پابند رہنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔ یہ تمام بزرگ شرک وبت پرستی سے سخت بیزار تھے۔ چونکہ نظریہ توحید کے اعتبار سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تمہارے ان تمام بزرگوں سے متفق ہیں اور اسی نظریہ توحید کی دعوت دیتے اور تبلیغ و اشاعت کرتے ہیں جو خود تمہارے ان روحانی اور جسمانی آباؤ اجداد کا تھا۔ لہذا جس طرح یہ چیز اس نظریہ کے حق ہونے کی دلیل ہے اسی طرح اس توحید کے پیش کرنے والے حضرت محمد ﷺ کی صداقت کی بھی دلیل ہے۔ رسالت پر مخالفین کو جو شبہات تھے ان کی تقریر ان کے مواقع پر آئے گی۔ تمہید : تمہید میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور سب کے مذہبی پیشوا تھے۔ انہوں نے ہی خانہ کعبہ تعمیر کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی خالص عباد سے آباد کیا۔ اس تمہید پر اگلے دلائل کی بناء ہے نیز آگے تحویل قبلہ کا حکم آرہا ہے یہ اس کے لیے بھی تمہید ہے کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے اس لیے اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے پر اعتراض بےجا ہے۔
Top