Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اے پروردگار ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول247 انہی میں کا کہ پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھلاوے ان کو کتاب اور تہ کی باتیں اور پاک کرے ان کو بیشک تو ہی ہے بہت زبردست بڑی حکمت والاف 248
247 ھُمْ ضمیر کا مرجع اُمَّةً مُّسْلِمَةًہے۔ رَسُوْلًا مِّنْھُمْیہاں بھی ھُمْ کا مرجع اُمَّةً مُّسْلِمَةًاور اُمَّةً مُّسْلِمَةًکے ساتھ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآکی قید گذر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں کی اولاد میں جو امت مسلمہ ہو ان میں سے ایک رسول برپا کرنا یہ دعا صرف اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہے جب کہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ان صفات کا حامل رسول مبعوث ہو لہذا حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں پیدا ہونے والے انبیاء کے ذریعے یہ دعاء پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ ذُرِّيَّتِنَآ میں نَا سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ہیں اس لیے کہ بنائے کعبہ کے وقت یہی دونوں وہاں موجود تھے۔ منھم سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ امت مسلمہ چونکہ انسان ہیں، خاکی ہیں، بشر اور بنی آدم ہیں لہذا ان میں سے جو رسول پیدا ہوگا وہ بھی انسان اور بشر ہی ہوگا نہ کہ کسی اور جنس اور نوع کا ہوگا۔ آگے اس رسول کی چند صفات بیان کی ہیں۔ پہلی صفت :۔ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ ۔ وہ انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کے الفاظ بلا کم وکاست ان تک پہنچائے۔ دوسری اور تیسری صفت :۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۔ ان کو کتاب و حکمت سکھائے۔ کتاب سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے الفاظ انہیں سمجھائے، ادائے الفاظ کی کیفیت بتائے، اس کی آیات کے مطالب ومعانی اور حقائق و اسرار سے آگاہ کرے۔ بان یفھمہم الفاظہ ویبین لھم کیفیۃ اداءہ ویوقفھم علی حقائقہ واسرارہ (روح ص 387 ج 1) اور حکمت سے مراد سنت اور احکام شریعت کی تشریح وتبیین ہے۔ وقال قتادۃ الحکمۃ السنۃ وبیان النبی الشرائع (قرطبی ص 131 ج 2، بحر ص 393 ج 1) یعنی اللہ کی کتاب کے احکام کی خدا کا پیغمبر جو زبانی تشریح و تفسیر کرے گا یا ان احکام کی کیفیت تعمیل بتائے گا حکمت سے یہ سب کچھ مراد ہے اور اسے ہی اصطلاحِ شریعت میں سنت کہا جاتا ہے اس کی مزید تشریح رکوع 18 میں آئے گی۔ وَيُزَكِّيْهِمْ ۔ یہ پیغمبر کی چوتھی صفت ہے یعنی وہ پیغمبر انہیں کفر وشرک کی نجاستوں، بد عملی کی آلائشوں اور بداخلاقی کی آلودگیوں سے پاک وصاف کرے۔248 یقیناً تو ہی سب پر غالب اور ہر حکمت کو جاننے والا ہے تجھے کسی دعاء کے ردو قبول پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور ہر دعاء کا ردو قبول بھی تیری حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء کا ظہور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت سے ہوا۔ اس دعاء کو یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے سامنےحضور ﷺ کی صداقت پر بطور دلیل پیش کیا کہ یہی وہ پیغمبر ہے جس کے ظہور کے لیے تمہارے روحانی اور جسمانی باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی۔ لہذا اس پر ایمان لاؤ اور اس کی لائی ہوئی دعوت توحید کو مانو کیونکہ یہ دعوت بھی وہی ہے جو خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے سامنے پیش کی اور مرتے وقت اس پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی۔
Top