Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 210
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
ھَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : سوائے (یہی) اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس اللّٰهُ : اللہ فِيْ ظُلَلٍ : سائبانوں میں مِّنَ : سے الْغَمَامِ : بادل وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَقُضِيَ : اور طے ہوجائے الْاَمْرُ : قصہ وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹیں گے الْاُمُوْرُ : تمام کام
کیا وہ اسی کی راہ دیکھتے ہیں کہ آوے ان پر اللہ ابر کے سائبانوں میں اور فرشتے398 اور طے ہوجاوے قصہ اور اللہ ہی کی طرف لوٹیں گے سب کام
398 یہ تخویف دنیوی ہے۔ وہ شریر لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت شرارتوں میں مصروف رہتے ہیں اور جن کی شرارتیں اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب وہ قیامت سے پہلے شروفساد سے باز نہیں آئیں گے۔ ان سے کیوں جہاد نہیں کرتے ہو۔ یُنْظَرُوْنَ کی ضمیر یہود کی طرف راجع ہے (روح ص 98 ج 2) یہودی اللہ تعالیٰ کے جسم کے قائل تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جب ٹھاٹھ اور شان و شوکت سے آتا ہے تو بادلوں پر سواری کر کے آتا ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تجلی ڈالی تھی وہ بادلوں ہی سے ڈالی تھی۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں کے خیال کے مطابق فرمایا کہ یہ یہودی جو اسلام کو قبول نہیں کر رہے یہ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ اور اس کے فرشتے بادلوں پر سوار ہو کر آئیں اور قیامت قائم ہوجائے تو پھر انہیں اسلام کی صداقت کا یقین ہوجائے گا۔ اور وہ اسلام قبول کرلیں گے۔ وذلک لان الیھود کانوا علی مذھب التشبیہ وکانوا یجوزون علی اللہ لمجئ ولذھاب وکانوا یقولون انہ تعالیٰ تجلی لموسی (علیہ السلام) علی الطور فی ظلل من الغمام (کبیر ص 293 ج 2) اور تورات میں ہے۔ " دیکھو خداوند ایک تیز رو بادل پر سوار ہو کر مصر میں آتا ہے اور مصر کے بت اس کے حضور لرزاں ہوں گے "۔ (کتاب یسعیاہ باب 19 فقر 1) تنبیہ :۔ اہل سنت کے نزیک اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے اور نہ کسی جسم کے مشابہ ہے۔ اور آنا جانا جسم کی صفات میں سے ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آمدورفت سے منزہ اور پاک ہے۔ اس لیے بہت سے مفسرین نے اس آیت کو متشابہات میں قرار دیا ہے اور اس کی تفسیر سے سکوت اختیار کیا ہے۔ اور بعض نے یہاں مضاف محذوف مانا ہے یعنی امر اللہ یا عذاب اللہ۔ جو توجیہہ ہم نے اوپر لکھی ہے اسے امام رازی (رح) نے ترجیح دی ہے۔ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۔ اور بندوں کے حساب و کتاب کا معاملہ طے ہوجائے اور نیک وبد اپنے اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ ای اتم امرالعباد وحسابھم فاثیب الطائع وعوقب العاصی (روح ص 99 ج 2) وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
Top