Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو415 اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں416 اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
415 مضمونِ جہاد کا تیسری باز ذکر۔ کُرْہْ سے طبعاً ناپسندیدہ چیز مراد ہے۔ مال وجان کا ضیاع ہمیشہ انسانی طبیعت کو گراں محسوس ہوتا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ کا امر بالجہاد ناپسند تھا۔ ای شاق علیکم قال بعض اھل المعانی ھذا لکرہ من حیث نفور الطبع عنہ لما فیہ من مؤنۃ الحال ومشقۃ النفس وخطر الروح لا انھم کر ھو امر اللہ تعالیٰ (معالم ص 171 ج 1) عَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ بعض چیزیں اپنے ظاہری اور مادی نقصانات کی وجہ سے تمہیں ناپسند ہوں اور تم انہیں اچھا نہ سمجھتے ہو مگر انجام کے لحاظ سے اور پوشیدہ فوائد کے لحاظ سے وہ تمہارے لیے خیر و برکت اور فلاح دارین کا باعث ہوں۔ مثلاً جہاد ہی کو لے لیجئے جو بظاہر قتل و خونریزی اور مال وجان کے ضیاع کی وجہ سے تمہیں ناپسند ہے مگر اس کا انجام بہتر ہے۔ کیونکہ جہاد ہی سے تم اپنا اور اپنے دین کا نام دنیا میں سر بلند کرسکتے ہو۔ اس کے وقار اور اس کی شان و شوکت کو قائم رکھ سکتے ہو۔ جہاد ہی سے تم اپنی عزت وآبرو اور اپنے مال وجان کی حفاظت کرسکتے ہو اور جہاد ہی سے تم غازیوں اور شہیدوں کے درجات حاصل کرسکتے ہو۔ اس سے بھی مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنا مقصود ہے۔416 اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک چیز کے ظاہری فوائد کی وجہ سے تم اسے پسند کرو مگر حقیقت میں وہ چیز تمہارے حق میں سخت مضر ہو۔ مثلاً جہاد میں شرکت نہ کرنے اور آرام و راحت سے گھر بیٹھے رہنے کو تم پسند کرتے ہو۔ اس لیے کہ اس طرح مال وجان محفوظ رہے گا۔ لیکن در اصل ترک جہاد میں تمہارا سراسر نقصان اور خسارہ دارین ہے۔ کیونکہ اس طرح تم کافروں کے ہاتھوں ذلیل ہوجاؤ گے۔ وہ تمہارا ستیاناس کردیں گے۔ مال لوٹ لیں گے۔ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیں گے۔ تمہارے شہروں پر قبضہ کرلیں گے۔ اور تمہارا دین دنیا سے مٹاڈالیں گے۔ یہ دوسری طرز پر جہاد کی ترغیب ہے۔ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَاللہ تعالیٰ کا علم کامل اور ہر چیز پر حاوی ہے۔ انسان کا علم ناقص اور محدود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے فوائد اور نقصانات سے بخوبی آگاہ اور ہر کام کی حکمتوں کو جانتا ہے۔ لہذا اس نے جو جہاد کا حکم دیا ہے اس میں یقیناً مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری ہے
Top