Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو يُؤْلُوْنَ : قسم کھاتے ہیں مِنْ : سے نِّسَآئِهِمْ : عورتیں اپنی تَرَبُّصُ : انتظار اَرْبَعَةِ : چار اَشْهُرٍ : مہینے فَاِنْ : پھر اگر فَآءُوْ : رجوع کرلیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ قسم کھالیتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس جانے سے ان کے لئے مہلت ہے چار ماہ کی446 پھر اگر باہم مل گئے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے
446 ربط : قسم کی جاہلی رسموں میں سے ایک ایلاء کا غلط استعمال تھا۔ اس لیے یمین کے بعد جاہلی ایلاء کی اصلاح فرمائی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہوجاتا اور اس کو ناپسند کرتا تو وہ اس سے ایلاء کرلیتا۔ یعنی قسم کھالیتا کہ میں اپنی بیوی سے ہمبستری نہیں کروں گا۔ اور ایلاء کی ان کے رواج میں کوئی مدت مقرر نہیں تھی۔ اس لیے ایک طرف تو خاوند ایلاء کی وجہ سے ساری عمر اپنی بیوی سے تعلقات زوجیت منقطع رکھتا دوسری طرف وہ عورت اس کی زوجیت سے خارج بھی نہ ہوتی تاکہ وہ دوسرے آدمی سے نکاح کرلے۔ اس طرح وہ بیچاری ساری عمر معلق رہتی تھی اور تکلیف اٹھاتی تھی۔ اسلام نے ان خرابیوں کو دور کرنے کیلئے جاہلیت کے ایلاء میں اصلاح کی اور اس کے لیے چار ماہ مدت مقرر کردی تاکہ خاوند ایلاء کے بعد اس عرصہ میں اپنی بیوی کے متعلق آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر کوئی رائے قائم کرے اگر سوچ بچار کے بعد اس فیصلہ پر پہنچے کہ اسے اپنی بیوی سے صلح کرلینی چاہئے اور دوبارہ اس سے تعلقات زوجیت استوار کرلینے چاہئیں تو اسے چاہئے کہ وہ ایلاء کے دن سے چار ماہ کے اندر اندار اس سے ہمبستری کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے اور اگر اس عرصہ میں اس نے یہی طے کیا ہے کہ وہ دوبارہ اپنی اس بیوی سے تعلقات برقرار رکھنا نہیں چاہتا تو وہ چار ماہ تک اس کے قریب نہ جائے اور اس سے صحبت نہ کرے۔ چار ماہ کا عرصہ گزرنے پر خود بخودعورت کو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی جس کی عدت گذارنے کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کرلے۔ یؤلون، ایلاء سے ہے۔ جس کے لغوی معنی مطلق قسم کھالینے کے ہیں۔ مگر اصطلاح شرع میں بیوی سے ترک صحبت پر قسم کھانے کو ایلاء کہتے ہیں۔ اما فی عرف الشرع فھو یمین علی ترک الوطئ (کبیر ص 359 ج 2) ایلاء کے مختلف الفاظ ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ یہ جملہ خبر مقدم ہے۔ تربص اربعۃ اشہر ج۔ تربص کے معنی انتظار اور توقف کے ہیں اور یہ جملہ مبتداء موخر ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرلیتے ہیں (یعنی ان سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھالیتے ہیں) ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے تاکہ وہ اس معاملہ میں اچھی طرح غور وفکر کرلیں۔ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ فاء و کے معنی رجعوا کے ہیں۔ یعنی حلف اٹھانے کے بعد اگر وہ چار ماہ کے اندر اندر ترک جماع سے رجوع کرلیں۔ اور عورت کو تکلیف دینے اور اسے چھوڑنے کے ارادے سے باز آجائیں اور اپنی قسم توڑ ڈالیں تو اللہ تعالیٰ قسم توڑنے اور عورت کو بلاوجہ تکلیف پہنچانے کا گناہ معاف کردیگا اور آئندہ کے لیے اصلاح احوال کے ارادے کی تکمیل میں اپنی رحمت اور مہربانی سے مدد دیگا اور اگر عورت کو چھوڑنے ہی کا ارادہ ہو تو اس کا حکم اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔
Top