Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے544 اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پرف 545
544 سود خوروں کیلئے یہ وعید شدید اور زبردست زجر ہے۔ یعنی اے سود خورو ! اگر تم سود لینے سے باز نہیں آتے تو تمہیں خدا اور خدا کے رسول کی طرف سے اعلان جنت ہے اب ان سے جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ۔ چونکہ اسلامی حکومت کا سربراہ اسلام نافذ کرنے میں خدا اور رسول خدا ﷺ کا نائب ہوتا ہے اس لیے سود خوروں سے جنگ کو عملی جامہ پہنانا اس کا فرض ہے اگر سود خور سود کو حلال سمجھتے ہیں تو وہ مرتد ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال سمجھ لیا اس لیے بوجوہ ارتداد ان سے جنگ کی جائے اور اگر انہوں نے سود کو حلال تو نہیں سمجھا لیکن سود لینا ترک نہیں کیا تو وہ اسلامی حکومت کے آئین کے باغی ہیں اس لیے بوجہ بغاوت ان سے جنگ لازم ہے۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا۔ ای ما امرتم بہ من التقاء وترک البقایا اما مع انکار حرمتہ واما مع الاعتراف فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ وھو کحرب المرتدین علی الاول وکحرب البغاة علی الثانی (روح ص 53 ج 3، قرطبی ص 364 ج 3، خازن ص 654 ج 1) 545 اگر تم نے آئندہ کیلئے سود لینے سے توبہ کرلی ہے تو تم اپنا راس المال لے سکتے ہو مگر اس سے زائد لینے کی اجازت نہیں تاکہ نہ مقروض پر ظلم ہو اور نہ تم پر۔ آجکل بعض لوگ جن کے دماغوں پر بینک کا سود حلال کرنیکا جنون سوار ہے وہ کہتے ہیں کہ سود صرف وہی حرام ہے جس میں کسی فریق پر ظلم ہو اور بینک کے سود میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ معاملہ فریقین کی رضام خدا جانے ان لوگوں کے ذہنوں میں ظلم کا کونسا تصور جاگزیں ہے۔ قرآن مجید نے تو اصل رقم سے زائد رقم وصول کرنے ہی کو ایک فریق کے حق میں ظلم قرار دیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرضخواہ کو حکم دیا کہ تم اپنا اصل مال لے سکتے ہو مگر اس سے زائد لینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی اصل رقم چھوڑنے کا مطالبہ ہے تاکہ تم دونوں فریق ظلم سے بچ جاؤ کیونکہ مقروض سے مقدار قرض سے زائد رقم وصول کرنا اس کے حق میں ظلم ہے اور قرضخواہ کے راس المال میں کمی کرنا اس کے حق میں ظلم ہے لاتظلمون غرماء کم باخذ الزیادۃ ولا تظلمون انتم من قبلھم بالنقص من راس المال (روح ص 53 ج 3) یہاں کان تامہ اور ذوعسرۃ اسکا فاعل ہے۔ فنظرۃ میں فاء جزائیہ ہے اور نظرۃ مصدر ہے اور اس کے معنی مہلت دینے کے ہیں اور یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے یعنی فعلیکم نظرۃ (روح ص 54 ج 3) مطلب یہ ہے کہ اگر مقروض تنگدست ہو اور فوری طور پر تمہارا راس المال واپس نہ کرسکتا ہو تو اسے مہلت دیدو اور جب وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہوجائے اس وقت اس سے اپنا حق وصول کرلو۔
Top