Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَکَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِآيَاتِنَا : ہماری آیات أُوْلَٰئِکَ : وہی اَصْحَابُ النَّار : دوزخ والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ منکر ہوئے اور جھٹلایا ہماری نشانیوں کو وہ ہیں دوزخ میں جانے والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے95
95 ۔ کفر سے مراد دل سے انکار ہے اور تکذیب سے زبانی انکار مراد ہے۔ فیراد بالکفر بالایات انکرھا بالقلب وابالتکذیب انکارھا باللسان۔ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۔ خلود سے مراد یہاں دوام ہے یعنی وہ عذاب جہنم میں ابد الآباد مبتلا رہیں گے۔ والخلود ھھنا الدوام علی ما نعقد علیہ الاجماع (روح ص 241 ج 1) بنی اسرائیل کو دعوت شروع میں یَا اَیُّہَا النَّاسُ کے خطاب عام کے ذریعے تمام انسانوں کو توحید کی دعوت عام دی گئی عقلی دلیل سے دعوی توحید کو مدلل اور واضح کیا گیا۔ اور دعویٰ توحید سے متعلق دو شبہات کا نہایت تسلی بخش طریقہ سے ازالہ کر کے ثابت کیا گیا کہ نہ فرشتے پکارنے کے لائق ہیں نہ انبیاء (علیہم السلام) اور جنات۔ اب اگلی آیت سے روئے سخن یہودیوں کی طرف پھیر دیا گیا ہے ہجرت کے بعد مدینہ میں سب سے پہلی سورت جو پیغمبر خدا ﷺ پر نازل ہوئی وہ سورة بقرہ تھی۔ مدینہ اور اس کے گردونواح میں یہودیوں کی کافی آبادی تھی۔ ان میں بڑے بڑے نواب، علماء پیر اور درویش موجود تھے۔ عوام کو ان سے محبت تھی۔ بلکہ مشرکین مکہ بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ اس لیے ان مولویوں اور پیروں کی اصلاح سے پوری قوم کی اصلاح ہوسکتی تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور اس میں جا بجا یہودیوں کو خطاب فرمایا۔ اور ان کی اصلاح کیلئے حکیمانہ نصیحت کے مختلف طریقے اختیار فرمائے کہیں نرمی سے سمجھایا ہے کہیں سختی سے کہیں وعدہ انعام کے ساتھ اور کہیں وعید انتقام کے ساتھ، کہیں تو ان پر اور ان کے آباء و اجداد پر کئے گئے احسانات جتلا کر انہیں ایمان لانے کی ترغیب دی ہے اور کہیں ان کے غلط کار باپ دادوں کا برا انجام یاد دلا کر انہیں ڈرایا ہے تاکہ وہ ضدوعناد اور انکار حق سے باز آجائیں۔ کہیں ان کی شرارتوں اور خباثتوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنے بےپایاں عفودرگزر کا ذکر فرمایا ہے تاکہ ان کا جذبہ سپاس گزاری بیدار ہو اور ان میں غیرت وحیا کا کچھ احساس پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ناصح مہربان اور حکیم ہے اس لیے اس نے یہودیوں کے عوام و خواص کی اصلاح پندونصیحت کا ہر ممکن انداز اختیار فرمایا ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی طرح راہ راستہ پر آجائیں۔ اور دعوت حق قبول کرلیں۔ اور اگر وہ ضدوانکار پر ڈٹے رہے تو حجت خداوندی ان پر قائم ہوجائے۔ پانچویں رکوع کی ابتداء یعنی ۧيٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ سے لے کر پندرھویں رکوع میں وَلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَةٌ وَلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ تک بنی اسرائیل کی اصلاح کے عمومی پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے اور پھر وہاں سے مسئلہ رسالت ونبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ اصلاح کے عمومی پہلو کے سلسلے میں تذکیر ورشاد کیلئے پانچ طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔ 1 ۔ یہودیوں کے باپ دادوں پر کیے گئے انعامات کا ذکر۔ 2 ۔ ان کے باپ دادوں کی خباثتوں کا ذکر۔ 3 ۔ نزول قرآن کے وقت موجودہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کا ذکر۔ 4 ۔ ان کی بد اعمالیاں تو ایک طرف رہیں ان کے باپ دادا توحید بیان کرنے والے پیغمبروں کو قتل کرتے رہے اور ان کو جھٹلاتے رہے اس کا ذکر۔ 5 ۔ ان کے آباء و اجداد کا ذکر چھوڑو موجودہ بنی اسرائیل کا یہ حال ہے کہ آخری پیغمبر جب آگیا تو یہ اس کو جھٹلانے لگے۔ حالانکہ اس کے آنے سے پہلے اس کی آمد کی خوشخبری دیا کرتے تھے، ان کی مخالفت کا ذکر۔ اصلاحی پروگرام۔ اس سلسلے کے آغاز میں بنی اسرائیل کے سامنے آٹھ اوامر اور چار نواہی پر مشتمل ایک اصلاحی پروگرام پیش کیا گیا ہے۔
Top