Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جن کو خیال ہے کہ وہ روبرو ہونے والے ہیں104 اپنے رب کے اور یہ کہ ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
104 ۔ لفظِ ظن عربی زبان میں شک اور یقین دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ الظن من الاضداد یکون شکا ویقیناً (معالم ص 47 ج 1) العرب قد تسمی الیقین ظنا والشک ظنا (ابن جریر ص 200 ج 1) یہاں یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یظنون یستیقنون (ابن جریر ص 271 ج 1) والظن ھنا فی قول الجمہور بمعنی الیقین (قرطبی ص 375 ج 1) یعنی وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں کسی کام پر آمادہ کرنے کے لیے دو ہی چیزیں محرک ہوسکتی ہیں۔ یعنی " امید " اور خوف۔ مُلٰقُوا رَبِّھِمْ میں صفت ربوبیت کی صراحت سے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے مہربان رب کے پاس جائیں گے جس سے ان کی تمام امیدیں وابستہ ہیں۔ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ۔ خدا کی طرف واپسی سے فوراً ذہن یوم آخرت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اور اس کا نقشہ سامنے آجاتا ہے جس میں اللہ کے سوا کسی کی حکومت اور عدالت نہیں ہوگی۔ اس سے ترہیب کا پہلو نکلتا ہے اور ان کے خوف آخرت کی طرف اشارہ ہے۔ قال الشیخ (رح) تعالیٰ ثبت من ھذہ القصۃ ان لا تعبدوا من ھو عدو لکم واتبعوا ھدی الانبیاء علیھم السلام الذی اخذ علیکم العھد باتباعہ حین الاخذ علی ادم (علیہ السلام) حیث قال فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولا ھم یحزنون فلما عمم الخطاب اولا یقول یَا اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکم الایۃ فالان خص الخطاب باھل الکتاب بقولہ ۧيٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْاالخ۔ ونفی فی ضمنہ عبادۃ الانبیاء علیہم السلام۔ یعنی قصہ آدم وابلیس سے ثابت ہوا کہ ابلیس، آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم کا سخت دشمن ہے اس لیے اس کی عبادت مت کرو اور انبیاء (علیہم السلام) کی لائی ہوئی ہدایت کی پیروی کرو کیونکہ اتباع ہدی کا تم سے عہد لیا جاچکا ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے یا ایہا الناس الخ میں خطاب عام کے ذریعے مسئلہ توحید ماننے کی تمام بنی آدم کو دعوت دی اس کے بعد یبنی اسرائیل اذکروا الخ سے خاص اہل کتاب کو اس مسئلہ کی طرف متوجہ کیا عوام ہمیشہ تین گروہوں کے تابع ہوتے ہیں۔ عالموں کے، پیروں اور گدی نشینوں کے اور سوم نوابوں کے بنی اسرائیل کا خطاب عام سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو خطاب کر کے فرمایا کہ میری نعمتوں کو یاد کرو اور میرے احکام کی پیروی کا تم نے جو میرے ساتھ عہد کیا تھا اسے پورا کرو۔ ان دونوں باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ مسئلہ توحید کی مخالفت نہ کرو بلکہ اسے مان لو۔ اس کے عوض میں تم کو مزید نعمتیں دونگا اور دنیا وآخرت میں تم کو اجر عظیم عطا کروں گا۔ وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ الخ مسئلہ توحید جو میں نے قرآن میں نازل کیا ہے اس کو مان لو یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ تمہاری کتاب تورات میں بھی موجود ہے اگر تم اس مسئلہ کا انکار کرو گے تو تمہاری دیکھا دیکھی تمہارے مرید اور تمہاری رعیت بھی اس کا انکار کرے گی۔ اور اس کا گناہ اور وبال بھی تمہارے سر ہوگا۔ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰ یَتِیْ الخ چند روزہ اور حقیر دنیوی منافع، مذہبی اور خانقاہی ریاست کے بدلے مسئلہ توحید کو نہ چھوڑووَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِل ِالخ۔ نہ بیخبر لوگوں سے مسئلہ توحید کو چھپاؤ اور جن کو اس کا تھوڑا بہت علم ہے ان پر اس کو گڈ مڈ نہ کرو۔ وَلَا تَشْتَرُوْا باٰیٰتِیْ امر مصلح ہے ہے۔ شرک کو چھوڑ کر مسئلہ توحید کو مان کر نماز قائم کرو۔ یہودیوں کے مولویوں، ان کے پیروں اور گدی نشینوں کا جو اقتدار ان کے عوام کے دلوں میں جما ہوا تھا ان کی مذہبی آمریت اور ریاست، عوام سے حاصل ہونے والے مالی اور دنیوی فوائد ان تمام چیزوں کو یکدم چھوڑنا نہایت مشکل کام تھا اور مسئلہ توحید کو ماننے سے یہ سب کچھ چھوڑنا پڑتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم فرمایا۔ کیونکہ نماز سے ظاہری اور باطنی طہارت حاصل ہوتی ہے اور زکوۃ دینے سے ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور حب جاہ ومال میں کمی واقع ہوتی ہے۔ وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۔ اور جب تم مسئلہ توحید کو مان لو گے تو ظاہر ہے کہ تمہاری نذر ونیاز کی تمام آمدنیاں بند ہوجائیں گی۔ اور بہت سے تمہارے مرید اور نیاز مند بھی تم سے منحرف ہوجائیں گے۔ اس لیے اس نقصان کی تلافی کے لیے نیز اس صدمہ کو بردارشت کرنے کے لیے تم صبر اور نماز سے کام لو۔ ۧيٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْاتک اجمال کے بعد تفصیل ہے اور اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَاور وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ہی کا تفصیلی بیان ہے۔ بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید ماننے کی وجہ سے اپنی گوناگوں نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا لیکن جب اس قوم نے توحید کو چھوڑ کر شرک کرنا شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے عذاب و عتاب کا نشانہ بنایا۔ اس اجمال کی تفصیل کو آگے پانچ انواع میں بیان کیا گیا ہے۔ نوع اول۔ یہ ترغیب وترہیب پر مشتمل ہے اس میں یہود کے آباء و اجداد پر آٹھ نعمتوں اور دو نقمتوں کا ذکر ہے۔ شروع میں اجمالی طور پر ترغیب وترہیب کا اعادہ ہے اور پھر تفصیل ہے۔ یہ نوع گویا کہ اذکروا نعمتی اور ایای فارھبون کی تشریح و توضیح اور تفصیل ہے۔
Top