Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے107 جو کرتے تھے تم پر بڑا عذاب ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمہاری عورتوں کو108 اور اس میں آزمایش تھی تمہارے رب کی طرف سے بڑی109
107 ۔ یہ پہلا انعام ہے۔ آل فرعون سے مراد یہاں قوم فرعون ہے جو کفر وشرک کے مسلک میں اس کہ ہمنوا تھی۔ اما اٰل فرعون فلا شک ان المراد منہ ھھنا من کان من قوم فرعون وھم الذین عزموا علی اھلاک یبنی اسرائیل (کبیر ص 515 ج 1) اٰل فرعون قومہ واتباعہ واھل دینہ (قرطبی ص 381 ج 1) قوم فرعون سے نجات دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف سے جو مظالم ان پر توڑے جاتے تھے اور جو تکلیفیں اور ایذائیں انہیں دی جاتی تھیں ان سے ان کو بچا لیا۔ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ ۔ فرعون کی قوم چونکہ حکمران تھی اور بنی اسرائیل محکوم تھے اس لیے قوم فرعون ان کو بیاب ر میں پکڑ لیتے اور ان سے سخت محنت اور مشقت کراتے۔ اس طرح انہیں جسمانی عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ 108 ۔ یہ ذہنی اور روحانی کوفت تھی جو انہیں فرعونیوں کی طرف سے اٹھانی پڑ رہی تھی۔ بنی اسرائیل کے بیٹوں کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ فرعون نے سن رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ انبیاء و سلاطین پیدا ہوتے رہیں گے (یہاں تک کہ خاتم النبیین ﷺ کا ظہور ہوجائے) ۔ اس سے فرعون نے اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کیا۔ اور بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے لڑکوں کا قتل عام شروع کردیا۔ عن ابن عباس ؓ انہ وقع الی فرعون وطبقتہ ما کان اللہ وعد ابراہیم ان یجعل فی ذریتہ انبیاء وملوکا فخافوا علی ذلک واتفقت کلمتھم علی اعداد رجال معھم الشفاء یطوفون فی بنی اسرائیل فلا یجدون مولودا ذکراً الا ذبحوہ (کبیر ص 517 ج 1) ۔ 109 ۔ لفظ " بلاء " نعمت اور مصیبت دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ فیقال للنعمۃ الشدیدۃ بلاء (کبیر ص 517 وغیرہ) یہاں اگر ذلک کا ارشارہ فرعونیوں کے افعال کی طرف ہو تو بلاء کے معنی ابتلاء اور مصیبت کے ہوں گے۔ اور اگر اشارہ نجات دینے کی طرف ہو تو اس کے معنی نعمت کے ہونگے اور یہی زیادہ موزوں ہے۔ البلاء ھھنا ھو المحنۃ ان اشیر بلفظ ذلکم الی صنع فرعون والنعمۃ ان اشیر بہ الی الانجاء وحملہ علی النعمۃ اولی لانہاھی التی صدرت من الرب تعالیٰ ولان موضع الحجۃ علی الیھود انعام اللہ تعالیٰ علی اسلافھم (کبیر ص 518 ج 1، کذا فی الروح ص 254 ج 1 والقرطبی ص 387 ج 1 والبیضاوی ص 24)
Top