Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور جب پھاڑ دیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریا کو پھر بچا دیا ہم نے تم کو110 اور ڈبا دیا فرعون کے لوگوں کو اور تم کو دیکھ رہے تھے111
110 ۔ یہ دوسرا انعام ہے۔ بِکُمْ میں با بمعنی لام ہے۔ یعنی ہم نے تمہارے لیے سمندر کو چیر کر اس میں راستے بنائے۔ ای فرقنا لکم (معالم ص 49 ج 1، قرطبی ص 387 ج 1) یا " باء " سببیت کے لیے ہے۔ فرقناہ بسببکم وبسبب انجاء کم (کبیر ص 818 ج، روح ص 25 ج 1) اور البحر سے مراد یہاں بحر احمر ہے جس کا دوسرا نام بحر قلزم ہے ویذکران البحر ھو بحر القلزم (قرطبی ص 390 ج 1) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شب وروز تبلیغ میں مصروف رہے مگر فرعون اور اس کی قوم پر ان کی دعوت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ و ارشاد اور معجزات کے ذریعے ان پر حجت خداوندی قائم کردی۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مظلوم بنی اسرائیل کی آہ و پکار سن لی جو مدت ہائے دراز سے فرعونیوں کے ظلم وستم وسہہ رہے تھے اب فرعونیوں پر عذاب الٰہی کے نزول کا وقت آپہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کو ساتھ لے کر ہجرت کر جانے کا حکم دیدیا۔ چناچہ وہ راتوں رات چل نکلے اور چلتے چلتے سمندر کے کنارے جا پہنچے۔ ادھر فرعون کو خبر ہوگئی۔ وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر ان کی تلاش میں چل نکلا۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ سامنے سمندر ہے اور پیچھے دشمن اور دائیں بائیں پہاڑ تو گھبرا اٹھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم خداوندی پا کر اپنا عصا سمندر میں مارا جس سے فوراً سمندر کا پانی سمٹ گیا اور اس میں بارہ کشادہ راستے بن گئے۔ اسرائیلی ان راستوں کے ذریعے سمندر پار کر کے جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے۔ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ 111 ۔ جب فرعون لاؤ لشکر لیکر ساحل سمندر پر پہنچا اور سمندر میں خشک راستے دیکھے تو اس نے بھی اپنا گھوڑا سمندر میں اتار دیا اور اس کے پیچھے سارا لشکر سمندر میں گھس گیا۔ جب سارا لاؤ لشکر سمندر میں اتر گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو جاری کر کے سب کو غرق کردیا فرعونیوں کے غرق ہونے کا یہ نظارہ اسرائیلیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
Top