Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
اور جب ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے چالیس رات کا112 پھر تم نے بنا لیا بچھڑا موسیٰ کے بعد اور تم ظالم تھے
112 ۔ یہ تیسرا انعام ہے۔ سمندر پار کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تورات لینے کے لیے حکم خداوندی سے کوہ طور پر پہنچے۔ وہاں آپ نے چالیس راتیں بسر کیں۔ اور اللہ کی طرف سے تورات حاصل کی۔ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ ۔ اِتَّخَذْتُم کا دوسرا مفعول محذوف ہے ای اتخذتم العجل الہاً ۔ یعنی تم نے گوسالہ کو معبود بنا لیا (ابو السعود ص 528 ج 1، قرطبی ص 396 ج 1) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب بنا کر خود کوہ طور پر چلے گئے تو سامری نے جو ایک منافق تھا، سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور ان کو پگھلا کر ان سے بچھڑے کا بت تیار کیا اور حضرت ابن عباس اور معمر کے قول کے مطابق مٹی کی وہ مٹھی جو اس نے جبرئیل (علیہ السلام) کی سواری کے پاؤں کی جگہ سے اٹھائی تھی اس میں ڈال دی جس سے اس میں زندگی پیدا ہوگئی اور وہ جاندار بچھڑے کی طرح بولنے لگا۔ فلما جمعوہ القی السامری القبضۃ وقال کن عجلا جسدا لہ خوار فصار کذلک (روح ص 248 ج 16، قرطبی ص 235 ج 1) اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ بچھڑے کے پیٹ کی ساخت میں اس قسم کے سوراخ تھے کہ جب ان میں ہوا داخل ہوتی تھی اس وقت ہو بہو بچھڑے کی سی آواز پیدا ہوجاتی۔ خوارہ وصوتہ کان بالریح لانہ کان عمل فیہ خروقا فاذا دخلت الریح فی جو فہ خار ولم تکن فیہ حیاۃ وھذا قول مجاھد (قرطبی ص 235 ج 1) سامری نے اسرائیلیوں سے کہا کہ یہ تمہارا رب ہے اس کی پوجا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس میں حلول کیے ہوئے ہے۔ یہی عقیدہ عیسائیوں کا تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) میں حلول کیے ہوئے ہے۔ یہی عقیدہ آج کل کے بعض غالی مبتدعین کا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پیرومرشد میں داخل ہے۔ چناچہ اسرائیلی حضرت ہارون (علیہ السلام) کے روکنے کے باوجود گوسالہ سامری کی پوجا کرنے لگے۔ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ یعنی اس شرک کی وجہ سے تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ ۔ اس ارتکاب شرک کے بعد جب تم نے سچی توبہ کرلی تو ہم نے تمہارا یہ قصور معاف کردیا۔ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ تاکہ تم اس انعام کا شکریہ ادا کرو اور آئندہ کے لیے شرک سے باز رہو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو شعار زندگی بناؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چند دنوں کے لیے ہی اپنی امت سے غائب ہوئے تھے کہ سامری نے مکروفریب سے ان کی امت کو گمراہ کردیا۔ اس قسم کے سامری تقریباً ہر امت میں موجود ہوتے ہیں۔ امت محمدیہ میں بھی آج کئی مذہبی اور سیاسی سامری موجود ہیں جنہوں نے کمال عیاری سے سادہ لوح قسم کے لوگوں کو غلط راہ پر ڈال رکھا ہے۔ وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ۔ یہ چوتھا انعام ہے۔ الکتاب اور الفرقان سے مراد تورات ہے کیونکہ یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں۔ ان التورۃ لھا صفتان کونھا کتابا منزلا وکونہا فرقاناً تفرق بین الحق والباطل (کبیر ص 524 ج 1 کذا فی المعالم ص 52 ج 1) لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔ تاکہ ایک جامع نظام زندگی تمہارے ہاتھ میں آجائے اور تم زندگی کے ہر شعبہ میں سیدھری راہ پر چل کر رضائے الٰہی حاصل کرسکو۔ پانچواں انعام۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ ۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے واپس آئے اور قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلاپایا تو انہیں توبہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۔ یعنی جنہوں نے گوسالہ کی پوجا نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جنہوں نے اس کی پوجا کی ہے۔ ای لیقتل بعضکم بعضا۔ وروی انہ امر من لم یعبد العجل ان یقتل من عبدہ (روح ص 260 ج 1) توبہ کی اصل تو یہ کہ آدمی گذشتہ گناہوں پر نادم ہو اور آئندہ کیلئے گناہوں کے ترک کا عزم مصمم کرے مگر اسرائیلیوں کی توبہ کی قبولیت کے لیے قتل نفس کو شرط قرار دیا گیا۔ لان اللہ تعالیٰ اوحی الی موسیٰ (علیہ السلام) ان شرط تو بھم قتل النفس (کبیر ص 527 ج 1) ۭ اِنَّھٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ۔ اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے جب اس نے ان کے دلوں کا اخلاص دیکھا تو ان کی توبہ قبول کرلی اور انہیں معاف کردیا۔113 ۔ یہ چھٹا انعام ہے یعنی جب تک ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں اس وقت تک ہم تمہارے بیان کی تصدیق نہیں کریں گے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تورات لیکر اپنی قوم کے پاس آئے اور قبول توبہ کے مذکورہ بالا واقعہ کے بعد ان سے کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو تو ان میں بعض گستاخ اور ضعیف الایمان قسم کے لوگوں نے کہا کہ جب تک ہم خود تورات کے متعلق اللہ کا حکم نہیں سنیں گے اس وقت تک نہیں مانیں گے۔ نیز ان میں سے بعض نے کہا کہ تورات کے احکام مشکل میں ہم سے ان پر عمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مشکل احکام نافذ فرمائے جس طرح آج کل نئی روشنی سے متاثر ذہنیتیں رکھنے والے مسلمان کہتے ہیں کہ جی قرآن کے کئی ایک احکام تو بڑے ہی سخت ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور ہی کیلئے موزوں تھے مگر اس ترقی یافتہ زمانہ میں تو وہ بالکل ہی ناقابل عمل ہیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ستر نیک اور برگزیدہ آدمیوں کو چن کر کوہ طور پر لے گئے وہاں انہوں نے پس پردہ اپنے کانوں سے اللہ کا کلام سنا مگر پھر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ایک مہمل اور ناممکن مطالبہ پیش کردیا کہ اللہ کا کلام تو ہم نے سن لیا مگر ہمیں کامل اطمینان صرف اسی صورت میں ہوگا کہ ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ ۔ صاعقہ سے مراد گرجدار آواز ہے۔ صیحۃ سماویۃ خروا لھا صعقین میتین (ورح ص 262 ج 1) یہ مطالبہ چونکہ نہایت گستاخانہ اور محض ضد اور عناد پر مبنی تھا۔ طلب ہدایت کے لیے نہیں تھا اس لیے ان کو اس کی پاداش میں ایک گرجدار آواز کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ لانھم لم یسالو سوال استرشاد بل سوال تعنت وعناد (مدارک ص 39 ج 1) لفرط العناد والتعنت وطلب المستحیل فانھم ظنوا انہ تعالیٰ یشبہ الاجسام فطلبوا رؤیتہ رؤیۃ الاجسام فی الجھات والاحیاز المقابلۃ للرای وھی محال اہ (بیضاوی ص 25) وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ۔ یعنی تم نے اپنی آنکھوں سے صاعقہ کے ذریعے ایک دوسرے کو مرتے دیکھا۔ ای ینظر بعضکم لبعض حین اخذکم الموت (معالم ص 53 ج 1)
Top