Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور جب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں117 اور کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو فراغت سے118 اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہتے جاؤ بخش دے119 تو معاف کردیں گے ہم تمہارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو
117 ۔ یہ پہلا عذاب ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تو میدان تیہ ہی میں وفات ہوچکی تھی اور حضرت یوشع (علیہ السلام) آپ کے جانشیں ہوچکے۔ ادھر بنی اسرائیل کے وہ بڑے بوڑھے سرکش بھی ختم ہوچکے تھے جنہوں نے جہاد سے انکار کیا تھا۔ اب حضرت یوشع (علیہ السلام) نے نوجوانوں کی نئی پود کو جہادِ عمالقہ پر آمادہ کیا اور ملک شام کو فتح کرلیا اس کے بعد انہیں بیت المقدس کے شہر میں داخل ہونے کا حکم ملا یہاں القریہ سے مراد بیت المقدس کا شہر ہے۔ وھو اختیار قتادۃ والربیع وابی مسلم الاصفہانی۔ انہ بیت المقدس (کبیر ص 534 ج 1)118 ۔ یہاں دنیوی لذائذ سے متمع ہونے کی اباحت فرمائی۔ وَّادْخُلُوا الْبَابَ ۔ الباب سے مراد بیت المقدس کا دروازہ ہے والمراد بھا علی المشہور احد ابواب بیت المقدس وتدعی الان باب حطۃ قالہ ابن عباس (روح ص 265 ج 1) وھو قول الضحاک و مجاھد وقتادۃ کبیر ص 534 ج 1) اور سجود سے مراد اصطلاحی سجدہ نہیں بلکہ محض انحنا اور جھکنا مراد ہے اور بعض نے اسے تواضع اور خضوع پر محمول کیا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مراد اصطلاحی سجدہ ہو یعنی پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ قال الحسن اراد بہ نفس السجود الذی ھو الصاق الوجہ بالارض (کبیر ص 534 ج 1) امام رازی (رح) نے اس پر اشکال وارد کیا ہے کہ اگر سجدہ سے مراد اصطلاحی سجدہ ہو تو سجدہ کی حالت میں دروازے سے داخل ہونا ناممکن ہے مگر اشکال صرف اسی صورت میں ہے جبکہ دروازے سے فصیل شہر کا دروازہ مراد ہو لیکن اگر دروازہ سے بیت المقدس کی مسجد کا دروازہ مراد ہو جیسا کہ امام نسفی فرماتے ہیں باب القبلۃ التی کانوا یصلون الیھا (مدارک ص 39 ج 1) اور سجداً حال موکدہ نہ ہو بلکہ حال مقدرہ ہو جیسا کہ یا ایہا النبی انا ارسلناک شاہداً میں علامہ زمخشری نے لکھا ہے (کشاف ص 434 ج 2) تو اس صورت میں اصل عبارت یوں ہوگی وادخلوا باب المسجد مقدرین لکم السجود وقت حصولکم فیہ۔ اور مقصد یہ ہے کہ اس شہر میں کھانے پینے کی چیزیں کثرت اور فراوانی سے موجود ہیں۔ خوب فراخی سے کھاؤ، پیو اور ساتھ بطور شکر نعمت خدا کے گھر میں حاضر ہو کر اس کی عبادت بجا لاؤ۔ حضرت شیخ (رح) اسی معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔119 ۔ حِطَّۃٌمبتداء محذوف کی خبر ہے۔ ای مسئلتنا حطۃ (مدارک ص 40 ج 1، کبیر ص 535 ج 1) یعنی ہماری درخواست گناہوں کی معافی ہے۔ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ ۔ یہ ادخلوا اور قولو دونوں کا جواب ہے۔ یعنی جب تم میری عبادت بجا لاؤ گے اور مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو گے تو میں تمہارے تمام گناہ معاف کردوں گا۔ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ ۔ محسنین سے مخلصین کاملین مراد ہیں جیسا کہ حدیث جبریل میں احسان کی تفسیر میں سے ان تعبد اللہ کانک تراہ مطلب یہ کہ گناہوں کی معافی تو ان سب کے لیے ہے جو مذکورہ حکم کی تعمیل کرینگے مگر مخلصین کو مزید انعام واکرام سے نوازا جائیگا۔ یا محسنین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے ماضی میں خدا کی نافرمانی نہیں کی تھی مثلا گوسالہ کی پوجا نہیں کی اور من وسلوی کا ذخیرہ نہیں کیا وغیرہ (قرطبی ص 415 ج 1 ۔
Top