Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور جب لیا ہم نے تم سے قرار131 اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو کہ پکڑو جو کتاب ہے تم کو دی زور سے132 اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے تاکہ تم ڈرو
131 ۔ یہ پہلی خباثت ہے۔ یہاں میثاق سے مراد تورات پر عمل کرنے کا عہد میثاق ہے۔ بقول مافی التورۃ (مدارک ص 72 ج 1) بالمحافظۃ علی ما فی التورۃ (ابو السعود ص 554 ج 1) وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) تورات لے کر آئے اور بنی اسرائیل سے کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو تو انہوں نے کہا کہ یہ احکام سخت ہیں جب تک اللہ خود ہم سے ہمکلام نہ ہو اور اسے ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ہم نہیں مانیں گے جس طرح آج کل مغرب زدہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے احکام سخت ہیں جو موجودہ زمانے کے لیے غیر مفید ہیں اس لیے ان میں ترمیم ہونی چاہیے۔ اس پر انہیں صاعقہ بھیج کر ہلاک کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا مگر اس کے بعد پھر بھی وہ تورات کو ماننے پر تیار نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں پر کھڑا کردیا اور فرمایا کہ تورات پر عمل کرنے کا عہد کرو ورنہ پہاڑ گرا کر تمہیں ہلاک کردیا جائیگا تو اس پر سب نے تورات پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ یہاں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ دین میں تو جبرواکراہ نہیں تو پھر اسرائیلیوں پر پہاڑ لٹکا کر انہیں تورات پر عمل کرنے پر کیوں مجبور کیا گیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداء قبول اسلام پر کسی کو مجبور کرنے کی اسلام میں قطعاً کوئی اجازت نہیں البتہ قبول اسلام کے بعد اگر کوئی شخص اسلام کے دستور حیات سے بغاوت کرے گا تو اسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائیگا۔ اسلام صرف چند مذہبی رسوم و احکام کا نام نہیں بلکہ وہ احکم الحاکمین کی حکومت سلطنت کا کامل دستور اور مکمل آئین ہے اس لیے اسے قبول کرنے کے بعد اس سے بغاوت کو بشرط ضرورت جبرواکراہ اور قوت و طاقت کے ذریعے روکا جائیگا بشرطیکہ حکومت اسلامی ہو۔ جیسا کہ دنیا کی تمام حکومتوں کا اصول ہے کہ وہ اپنے دستور اور آئین سے بغاوت وسرکشی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتیں۔ اسرائیلی چونکہ اسلام قبول کرچکے تھے اور اب اس کے دستور یعنی توراۃ سے جو اس وقت اسلام کا دستور تھا۔ سے بغاوت کر رہے تھے۔ اس لیے اسے برداشت نہیں کیا گیا اور بجبر واکراہ ان سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لیا گیا۔132 ۔ اس سے پہلے قُلْنَا محذوف ہے یعنی ہم نے کوہ طور ان کے اوپر کھڑا کر کے ان سے کہا کہ تورات کی صورت میں جو احکام ہم نے تمہیں دئیے ہیں ان کی سختی سے پابندی کرو۔ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ ۔ اور اس کتاب کو درس و تدریس کے ذریعے یاد رکھو۔ اس میں غور وفکر کرو اور اس کے امر ونہی پر عمل کرو واحفظوا ما فیہ وادرسوہ ولا تنسوہ ولا تغفلوا عنہ (مدارک ص 43 ج 1، کبیر ص 552 ج 1) ای تدبروہ واحفظوا وامرہ ووعیدہ ولا تنسو ولا تضیعوہ (قرطبی ص 437 ج 1) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ تاکہ تم دنیا کی تباہی اور آخرت کے عذاب سے بچ سکول کی تنجوا من الہلاک فی الدنیا والعذاب فی العقبی (معالم ص 58 ج 1)
Top