Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے اللہ فرماتا ہے تم کو ذبح کرو ایک گائے138   وہ بولے کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے139 کہا پناہ خدا کی کہ ہوں میں جاہلوں میں
138 ۔ یہ دوسری خباثت ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا مگر وہ خبث باطن کی وجہ سے اس حکم کو مذاق سمجھنے لگے اور اس معاملہ کو چالیس سال تک ٹالتے رہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ گائے ذبح کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کو اس کے عم زادوں نے اس کی دولت حاصل کرنے کے لیے رات کی تاریکی میں قتل کردیا۔ صبح ہوئی تو شوروغل بپا کردیا اور معاملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ہدایات حاصل کر کے انہیں گائے ذبح کر کے اس کا کوئی حصہ مقول کے جسم سے لگانے کا حکم دیا تاکہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا پتہ بتا دے۔ اس واقعہ کا پہلا حصہ بعد میں واذ قتلتم نفسا فادارئتم فیھا میں مذکور ہے اور واذ قال موسیٰ لقومہ میں واقعہ کا آخری حصہ مذکور ہے۔ واقعہ کی ترتیب کو اس لیے بدلا گیا تاکہ ایک ہی واقعہ سے متعلق ان کی دو خباثتوں کی واضح طور پر نشاندہی کی جاسکے اول گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں پس وپیش اور ٹال مٹول دوم بےگناہوں پر قتل کا الزام۔ اگر واقعہ کو اصل ترتیب سے ذکر کیا جاتا تو اس سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے۔ لیکن حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ یہ دو مستقل واقعے ہیں جیسا کہ گذشتہ واقعات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ کیونکہ واذ سے جتنے واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ سب مستقل واقعات ہیں۔ نیز بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گائے ذبح کرنے کے حکم اور گائے حاصل کر کے ذبح کرنے کے درمیان چالیس سال کا طویل وقفہ تھا (مدارک ص 44 ج 1، کبیرص 564 ج 1) نعش کا اتنا عرصہ بےگور وکفن پڑا رہنا اور پھر متعفن نہ ہونا یہ امور بھی عقل و قیاس سے بعید ہیں۔ اس سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ دو مستقل واقعے ہیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہو طویل پس وپیش اور جستجو کے بعد جب وہ مطلوبہ گائے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں تو قتل کا واقعہ پیش آگیا ہو اور انہیں اس گائے کا گوشت مقتول کے بدن سے لگانے کا حکم دیا گیا ہوتا کہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کی نشاندہی کرے وقیل انہ یجوز ان یکون ترتیب نزولھا علی موسیٰ (علیہ السلام) علی حسب تلاوتھا بان یامرھم اللہ تعالیٰ بذبح البقرۃ ثم یقع القتل فیؤمر وا بضرب بعضھا (روح ص 285 ج 1، قرطبی ص 445 ج 1) لیکن ایک سوال باقی رہ جائیگا کہ اس صورت میں گائے ذبح کرنے کے حکم کی وجہ کیا ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک واقعہ ہونے کی صورت میں جس چیز کو مفسرین کرام نے ذبح کیلئے گائے ہی کو منتخب کرنے کی حکمت کہا ہے اس صورت میں وہی ذبح بقرہ کی علت ہوگی۔ مصریوں کے ساتھ صدیوں رہنے کی وجہ سے وجہ سے اسرائیلی بھی گوسالہ پرستی کے شرک میں مبتلا ہوچکے تھے۔ وہ گائے کی پوجا کرتے اور اس کی تعظیم بجا لاتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے باوجود انہیں گوسالہ پرستی سے قدرے انس باقی تھا اگرچہ عملی طور پر وہ گائے کی پوجا نہیں کرتے تھے لیکن گوسالہ پرستی سے وہ پورے طور متنفر بھی نہیں تھے جبھی تو سامری کے گوسالہ کو دیکھتے ہی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اس لیے ان کے سابق معبود کو ان کی نظروں میں ذلیل کرنے اور انہیں اس کی عبادت سے کلی طور پر متنفر کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تاکہ توحید کی جڑیں ان کے دلوں کی گہرائیوں میں پھیل کر خوب مضبوط ہوسکیں۔ وقیل انما امروا بذبح البقرۃ دون غیرھا من البھائم لانھا افضل قرا بینھم ولعبادتہم العجل فاراد اللہ ان یھون معبودھم عندھم (مدارک ص 44 ج 1) وانما اختص البقر من سائر الحیوانات لانھم کانوا یعظمون البقر ویعبدونھا من دون اللہ فاختبر وا بذلک الخ (بحر ص 250 ج 1) ۔ 139 ۔ اسرائیلی سمجھے کہ گائے تو ایک مقدس اور معظم جانور ہے۔ بھلا اللہ تعالیٰ اسے ذبح کرنے کا حکم کس طرح دے سکتا ہے یا انہوں نے ذبح بقرہ کے ذریعے قاتل کے پتہ لگانے کو بعید از عقل سمجھا اس لیے کہا ہو نہ ہو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہم سے ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ۔ کیونکہ احکام خداوندی کی تبلیغ میں تمسخر کرنا جاہلوں اور بیوقوفوں کا کام ہے اور انبیا (علیہم السلام) کو یہ چیز زیب نہیں دیتی لان الہز فی اثنا تبلیغ امر اللہ سبحانہ جھل وسفہ (ابو السعود ص 559 ج 1) ۔
Top